امریکی دہشتگرد برسوں تک عراق، شام اور افغانستان میں رہیں گے
امریکی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مارک میلی نے اتوار کو مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو واشنگٹن کی قومی سلامتی کے مفاد میں قرار دیا اور کہا کہ واشنگٹن ایک عرصے تک اس موجودگی کو جاری رکھے گا۔
امریکی صدر ٹرمپ اب تک کئی بار مغربی ایشیا بالخصوص شام اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے وعدے کر چکے ہیں تاہم حالات سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن اپنی منھ زور پالیسیوں کے تحت مغربی ایشیا میں اپنے زیادہ سے زیادہ فوجیوں کو تعینات اور اسلحوں کے ذخائر کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔
امریکی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مارک میلی نے اتوار کو مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو واشنگٹن کی قومی سلامتی کے مفاد میں قرار دیا اور کہا کہ واشنگٹن ایک عرصے تک اس موجودگی کو جاری رکھے گا۔
جنرل میلی نے اے بی سی چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجی ممکن ہے کئی سال تک عراق، شام اور افغانستان میں موجود رہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شام میں تقریبا چھے سو امریکی فوجی تعینات رہیں گے۔
پینٹاگون کے اس سینئر عہدیدار نے دعوی کیا کہ مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا مقصد علاقے کے ممالک کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل ہونے سے روکنا ہے۔ مغربی ایشیا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی جاری رہنے کے بارے میں واشنگٹن کی ایک بار پھر تاکید ایسے عالم میں سامنے آئی ہے کہ علاقے کے ممالک کے عوام اور حکام کے اعلان کے مطابق امریکہ خود دہشتگردی پھیلنے اور اس کے مضبوط ہونے کا اصلی عامل ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سن دوہزار ایک میں دہشتگردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں امن و سیکورٹی قائم کرنے کے لئے اس ملک پر حملہ کیا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک افغانستان میں بدامنی، دہشتگردی اور منشیات کی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی واشنگٹن نے جنگ کے شکارافغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کی زمین بھی ہموار کردی ہے۔
شام کا بحران بھی دوہزار گیارہ میں شام کی منتخب اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے داعش سمیت مختلف دہشتگرد گروہوں کی بڑے پیمانے پر امریکہ اور اس کے مغربی وعربی اتحادیوں کی حمایت و پشتپناہی سے شروع ہوا اور واشنگٹن اب بھی شام کے تیل کے کنؤوں کی حفاظت کے بہانے مشرقی شام میں اپنی غیرقانونی فوجی موجودگی جاری رکھے ہوئے ہے۔
افغانستان اور شام سے امریکی فوجیوں کے نکلنے کے بارے میں ٹرمپ کے متضاد موقف اوران دونوں ملکوں میں امریکی فوجی موجودگی جاری رکھنے پر مبنی ان کا حالیہ موقف، پہلے مرحلے میں امریکی حکومت کے بیرونی اقدامات اور اہداف کے مبہم و نامعلوم ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے وعدوں کے برخلاف تقریبا چودہ ہزار امریکی فوجی اس وقت بھی افغانستان میں موجود ہیں اور یہ صورت حال غیرمعینہ مدت تک اس ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی جاری رہنے اور ٹرمپ و وائٹ ہاؤس کے فیصلوں پر امریکی سامراجی نظام کے تسلط کی علامت ہے۔