امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف ملک گیر تحریک
امریکہ میں نسل پرستی اور پولیس کے تشدد کے خلاف ملک گیر تحریک وسیع تر ہو گئی ہے اور کنٹکی میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام خاتون کے قتل کے خلاف لوگوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے دوران کینٹکی میں پولیس کے ہاتھوں برینا ٹیلر نامی ایک سیاہ فام خاتون کے اس کے اپنے گھر میں ہونے والے قتل کے خلاف لوگوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔
کینٹکی میں بھوک ہڑتال کرنے والوں نے اس سیاہ فام خاتون کا قتل کرنے والے پولیس افسروں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کینٹکی میں یہ ہڑتال ایسی حالت میں شروع کی گئی ہے کہ امریکہ میں ہزاروں سرکاری و غیر سرکاری ملازمین اور مزدوروں نے ملک گیر ہڑتال کرتے ہوئے کام کاج پر جانا بند کر دیا اور امریکہ میں جاری نسل پرستی اور عدم مساوات کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔
ایسوشیایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق امریکی مظاہرین نے اس مظاہرے میں جسے انہوں نے سیاہ فام شہریوں کی زندگی کے لئے ہڑتال کا نام دیا ہے، امریکی سیاہ فام شہریوں کے روزگار کی صورت حال کو بہتر بنائے جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کی سماجی تنظیموں، لیبر یونینوں اور نسلی مساوات کے حامیوں نے امریکہ کے چوبیس سے زائد شہروں میں اس ہڑتال کی کال دی اور ہڑتال و مظاہروں کے انتظامات کئے ہیں۔
ان مظاہروں میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ احتجاج کرنے والے وہ لوگ جو ان مظاہروں میں پورے وقت موجود نہیں رہ سکتے، ان سیاہ فام شہریوں کی یاد میں جو امریکی سفید فام پولیس اہلکاروں اور پولیس افسروں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں، کچھ منٹ کی خاموشی اختیار کریں۔
مزدوروں کی ایک بڑی تعداد نے نیویارک کے مینہٹن علاقے میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے سامنے بھی اجتماع اور امریکہ میں جاری نسل پرستی کے سسٹم اور اقتصادی عدم مساوات کے خلاف احتجاج کیا۔ واشنگٹن میں بھی نرسنگ اور طبی شعبے جیسے حساس اداروں میں کام کرنے والے ملازمین نے امریکہ میں جاری نسل پرستی کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
دوسری جانب امریکہ کی اندرونی سلامتی کے نائب وزیر نے ریاست اوریگن کے شہر پورٹلینڈ میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی سرکوبی کی حمایت کی ہے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی اندرونی سلامتی کے نائب وزیر کین کوچنلی نے شہر پورٹلینڈ میں احتجاج کرنے والوں کی سرکوبی اور ان کی گرفتاری کے لئے خفیہ پولیس سے استفادہ کئے جانے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ اقدامات ان رپورٹوں کے تحت کئے جا رہے ہیں جن میں شہر پورٹلینڈ میں ممکنہ طور پر سرکاری عمارتوں پر حملہ کئے جانے کی بات کہی گئی ہے۔
کوچنلی نے کہا کہ دوسرے شہروں سے بھی اگر ایسی رپورٹیں موصول ہوئیں تو اسی قسم کے اقدامات وہاں پر بھی عمل میں لائے جائیں گے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں کو اب تک اڑسٹھ بار گاڑیوں سے کچلنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ان حملوں میں احتجاج کرنے والے بہت سے مظاہرین زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ ایک شخص کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ یہ حملے زیادہ تر امریکی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں انجام پائے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی کی تحقیقات کے مطابق اس قسم کے حملوں کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا ہے اور یہ حملے سیاہ فام شہریوں کی مخالفت اور ان سے دشمنی کے تحت انجام پا رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں ایک سفید فام پولیس افسر نے پچیس مئی کو نو منٹ تک اپنے گھٹنے سے گردن دبا کر ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئڈ کا قتل کر دیا تھا۔ سفید فام پولیس افسر کے اس وحشیانہ اقدام کے خلاف پورے امریکہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور جگہ جگہ پولیس کی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور تا حال جاری رہنے کے ساتھ ساتھ اب ایک ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ملک گیر احتجاج میں شدت کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو بارہا تشدد کا حامی، بلوائی اور دہشت گرد قرار دیا اور ان کو کچلے جانے کی ہدایات جاری کر دیں۔
دنیا بالخصوص عالم اسلام اور علاقے کی اہم خبروں کے لیے ہمارا واٹس ایپ گروپ جوائن کیجئے!
Whatsapp invitation link