Jan ۱۶, ۲۰۲۱ ۱۷:۲۳ Asia/Tehran
  • امریکہ میں سیکورٹی کی صورت حال کے بارے میں تشویش

امریکی محکمہ پولیس کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ ایسے تشویشناک شواہد موجود ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری کے موقع پر مسلح اور پرتشدد احتجاجات کئے جا سکتے ہیں۔

امریکی پولیس ایف بی آئی کے نگراں سربراہ کریسٹوفر رے نے اعلان کیا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ایسی تشویشناک باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کے موقع پر مسلح اور پرتشدد احتجاجات کئے جا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ ہمیں تقریب حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن ڈی سی اور دیگر تمام ریاستوں میں سرکاری عمارتوں کے اطراف میں ممکنہ طور پر پرتشدد مظاہرے اور احتجاجات کئے جانے پر گہری تشویش لاحق ہے۔

وہائٹ ہاؤس کے سابق مواصلاتی شعبے کے انچارج انٹونی اسکارا موچی نے بھی امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد کے واقعات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں موجودہ صدر کو ہمیشہ اندرون ملک دہشت گردی کے لئے اکسانے والے صدر کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے صدر ہیں جنھوں نے تشدد و بدامنی کو فروغ دینے کے لئے اپنے حامیوں اور طرفداروں کو اکسایا ہے اور یہ کسی بھی امریکی صدر کی اکیسویں صدی کی بدترین حرکت شمار ہوتی ہے۔

انھوں نے امریکہ کے موجودہ صدر کے خلاف قانونی کارروائی اور سینیٹ میں ان کے پرتشدد اقدامات کی مذمت کئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

امریکہ کی فوج نے بھی ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ  پینٹاگوں نے نیشنل گارڈز محکمے کو جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری والے دن واشنگٹن میں پچیس ہزار سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

اس سے قبل امریکہ کے نیشنل گارڈ  کے ایک اعلی عہدیدار نے بیس ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی خبر دی تھی اور یہ  بھی کہا تھا کہ حلف برداری کی تقریب والے دن واشنگٹن میں مکمل تعطیل رہے گی اور یہاں تک کہ کرفیو نافذ کر دیا جائے گا۔

دریں اثنا واشنگٹن ڈی سی میں گیارہ جنوری سے چوبیس جنوری تک ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی تاکہ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن ڈی سی میں امن و امان کی صورت حال کا تحفظ کیا جا سکے۔

اسی طرح شہر واشنگٹن ڈی سی اور ورجینیا اور میری لینڈ ریاستوں کے حکام نے امریکی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حلف برداری کی تقریب والے دن اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

دوسری جانب کئے جانے والے ایک سروے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے چھیانوے فیصد لوگوں نے کیپٹل ہل پر چھے جنوری کے حملے کی شدید مخالفت و مذمت کی ہے جبکہ چھہتر فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو چاہئے کہ اس قسم کے واقعات کی کچھ تو ذمہ داری قبول کریں۔

امریکہ کے چھپن فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو امریکہ کے آئندہ کے صدارتی انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے شرکت سے ہی محروم کر دیا جانا چاہئے۔

چھے جنوری کو ٹرمپ کے طرفداروں نے امریکی کانگریس کی عمارت پر حملہ کر کے کچھ وقت کے لئے اس کو اپنے قیضے میں بھی لے لیا تھا۔ اس حملے میں چھے افراد ہلاک ہو گئے تھے جن مین ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔

امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد اس ملک کی ہونے والی ذلت و رسوائی اور اسی طرح ٹرمپ کے اشاروں پر عمل میں لائے جانے والے اقدامات اور پھر امریکہ کے موجودہ صدر پر ہونے والی کڑی تنقید کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں اپنے پہلے کے دعووں کی تکرار کئے بغیر اپنے ایک الگ بیان میں کیپٹل ہل پر کئے جانے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ کرنے والوں کو قانون کے حوالے کیا جائے گا۔

امریکہ کے موجودہ صدر نے قانون کی حمایت اور امریکی کانگریس کی عمارت پر حملے کی مخالفت میں اپنا یہ بیان ایسی حالت میں دیا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین نے گذشتہ ہفتے جمعرات کو امریکی صدر کا مواخذہ کئے جانے کی حمایت میں ووٹ دیا ہے اور مواخذے کے اقدام کی ایک سو ستانوے مخالف ووٹوں کے مقابلے میں دو سو بتیس موافق ووٹوں سے منظوری دی گئی ہے تاکہ ٹرمپ، امریکہ کی تاریخ کے پہلے ایسے صدر بن جائیں جو اپنی مدت صدارت کے دوران دو بار مواخذے کی تحریک سے دوچار ہوئے ہیں۔

ٹیگس