کیا بن سلمان کی قسمت کا فیصلہ جوبائیڈن کے ہاتھ میں ہے ؟
امریکی صدر نے کہا ہے کہ وہ بن سلمان کے بارے میں پیر کے روز پالیسی بیان دیں گے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا سعودی ولیعہد بن سلمان کو سعودی صحافی جمال خاشقچی کے قتل پر سزا دی جائے گی کہا کہ میں اس حوالے سے پیر کے روز بیان دوں گا کہ ان کے خلاف کیا کرنا چاہتے ہیں۔
رویٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا سعودی ولیعہد بن سلمان کے خلاف سعودی صحافی جمال خاشقچی کے قتل پر تادیبی اقدامات کئے جائیں گے؟، کہا کہ وہ اس حوالے سے پیر کے روز بیان دیں گے کہ ان کے خلاف کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مزید کچھ بتانے سے گریز کیا۔
دریں اثنا امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے جمال خاشقچی کے قتل کے ذمہ دار عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کے امریکی وعدے کا ذکر کرتے ہوئے ریاض کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا۔
نینسی پلوسی نے کہا کہ سعودی عرب کو جان لینا چاہئے کہ دنیا اس کے جارحانہ اور مجرمانہ اقدامات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو اپنے اس قسم کے اقدامات کا جواب دینا ہو گا۔
واضح رہے کہ امریکہ کے قومی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی کو گرفتار یا قتل کرنے کا حکم خود سعودی ولی عہد بن سلمان نے دیا تھا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اس اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی رپورٹ کے نتائج توہین آمیز اور من گھڑت ہیں۔
امریکہ کے قومی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاہی دربار کے فیصلوں کا کنٹرول بن سلمان کے ہاتھ میں ہے اور جمال خاشقجی کے قتل کی پوری کارروائی میں ان کا ایک مشیر اور ایک ذاتی محافظ براہ راست ملوث ہے جبکہ سعودی ولی عہد کی جانب سے جمال خاشقجی سمیت دوسرے مخالفین کی گرفتاری یا انہیں قتل کرنے کی حمایت بھی کی جاتی رہی ہے۔
سعودی ولی عہد پر کڑی نکتہ چینی کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کو اکتوبر 2018میں ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا۔اس سے پہلے سی آئی اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم براہ راست سعودی ولی عہد بن سلمان نے دیا تھا تاہم اس نے اس بارے میں ثبوت اور شواہد پیش نہیں کیے تھے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نے بھی 2019 کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کے انتہائی خراب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ بات بعید ہے کہ سعودی ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل کی کارروائی سے بے خبر ہوں۔