اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب کا بیان : ایرانی مندوب سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی
اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نے ایٹمی معاہدے سے متعلق یورپی یونین کے مجوزہ اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن کی آمادگی کا ایک بار پھر اعلان کیا ہے۔
سلامتی کونسل کی مرحلہ وار صدارت سنبھالنے والی امریکی مندوب لنڈا تھومس گرین فلیڈ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صدر جوبائیڈن صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ ہم ایران کو ایٹمی معاہدے میں مکمل واپسی کی ترغیب دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایران اس کام کے لیے آمادہ ہو تو امریکہ بھی ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نے بتایا کہ تاحال انہوں نے نیویارک میں اپنے ایرانی ہم منصب سے کوئی ملاقات نہیں کی ہے۔
اس سے پہلے وائٹ ہاوس کی ترجمان جینفر ساکی نے دعوی کیا تھا کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ایران کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن معاہدے کی دو طرفہ پابندی کی غرض بامعنی سفارت کاری شروع کرنے کے لیے بھی آمادہ ہے اور دعوی کیا کہ امریکہ اس سلسلے میں پانچ جمع ایک گروہ میں اپنے شرکا کے ساتھ بہترین طریقے سے مشاورت کرے گا۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ کےترجمان نیڈ پرائس نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران دعوی کیا ہے پانچ جمع ایک گروپ کا اجلاس ہی امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدے کے بارے میں بات چیت کا بہترین مقام ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یورپی ملکوں کے ہمراہ امریکہ کے ساتھ غیر رسمی بات چیت سے ایران کے انکار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں ثالثی کی یورپی تجویز مسترد کیے جانے سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یورپی یونین نے گزشتہ دنوں ایٹمی معاہدے کے رکن ملکوں اور ایران و امریکہ کے درمیان غیر رسمی اجلاس کی تجویز پیش کی تھی جسے ایران نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ امریکہ کے موقف اور اقدامات میں کسی تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے کہا تھا کہ امریکہ اور تین یورپی ملکوں کے تازہ بیانات اور اقدمات کے پیش نظر یورپی یونین کی جانب سے غیر رسمی اجلاس کی تجویز کا یہ وقت مناسب نہیں ہے۔
سعید خطیب زادے نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ امریکہ کے موقف اور پالیسیوں میں تاحال کسی تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کیا گیا اور بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو ترک نہیں کیا ہے بلکہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس کے تحت اپنی مجموعی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بھی حامی نہیں بھری ہے۔