روسی صدر نے ایٹمی ہتھیار چلانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، امریکی وزیرجنگ
امریکی وزیر جنگ نے کہا ہے کہ انہیں ایسی کوئی علامات دکھائی نہیں دیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوتین جنگ یوکرین میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں امریکی وزیر جنگ لوئیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ اس بارے میں فیصلہ صرف ایک شخص کرسکتا ہے اور وہ صدر ولادیمیر پوتین ہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے تاحال ایسی کوئی انٹیلی جنس علامات دکھائی نہیں دیں کہ روسی صدر نے یوکرین میں ایٹمی ہتھیار چلانے کا فیصلہ کرلیا ہو تاہم اس کے باوجود بقول ان کے میں نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی شویگوف کو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
امریکی وزیر جنگ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخارووا نے گزشتہ بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ روس کو ایٹمی ہتھیار چلانے پر مجبور کرنے کی غرض سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
اس سے پہلے روس کے سابق صدر دیمتری میدویدیف نے واضح کیا کہ ان کا ملک ایٹمی حکمت عملی کے تحت، اپنے دفاع میں ایٹمی ہتھیار چلانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
روس کی دفاعی اسٹریٹیجی کے تحت ملک کی مسلح افواج کواس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی زد میں آنے کا خطرہ محسوس ہونے، یا ملک کا وجود خطرے میں پڑجانے کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کا سہارا لے سکتی ہے۔
روس یوکرین جنگ کے آغاز سے اب تک، یورپ اور امریکہ ایک جانب یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی اور روس پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب اپنے دعوے کے مطابق روس کو ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے نتائج کے بارے میں مسلسل خبردار کر رہے ہیں۔
امریکہ اور یورپی ممالک نے نہ صرف یہ کہ جنگ یوکرین ختم کرانے کی کوشش نہیں کی بلکہ یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی اور روس کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کرکے، جنگ کو مزید طویل کرنے کی کوشش کر رہے ۔
دوسری جانب ہزاروں جرمن شہریوں نے یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی کے خلاف زبردست مظاہرے کیے ہیں۔
جرمن دارالحکومت برلن سمیت مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں شریک لوگ جنگ یوکرین کے خاتمے اور نیٹو کی جانب سے کیف کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
یوکرین کی جنگ اپنے وسیع تر سیاسی، عسکری، اقتصادی، سماجی اور حتی ثقافتی نقصانات کے باوجود آٹھویں مہینے میں داخل ہوگئی ہے اور مغربی ممالک ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے اس جنگ کو مزید ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
روس نے بارہا خبردار کیا ہے کہ مغرب کی جانب سے اسلحہ کی ترسیل کے باعث جنگ یوکرین مزید طول پکڑے گی اور اس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوں گے۔