جنگ یوکرین میں مغربی ملکوں کا مداخلت پسندانہ رویہ
مغربی ممالک یوکرین کی جنگ میں مداخلت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس جنگ کے بہانے یوکرین کا دفاعی سسٹم مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپنے تمام وسیع سیاسی، اقتصادی، سماجی اور یہاں تک کہ ثقافتی اثرات و نتائج کے ساتھ یوکرین کی جنگ اس وقت اپنے آٹھویں مہینے میں چل رہی ہے۔
مغربی ممالک خاصطور سے امریکہ، روس کے خلاف سخت ترین دباؤ اور پابندیوں نیز یوکرین کی فوجی مدد و حمایت کر کے نہ صرف جنگ جاری رہنے کا باعث بنا ہوا ہے بلکہ اس جنگ کی آگ کے شعلے بھڑکانے میں بھرپور کردار بھی ادا کر رہا ہے۔
یوکرین کے دفاعی سسٹم کو مضبوط بنانے کے لئے اپنے مغربی اتحادی ملکوں پر، کیف کے شدید دباؤ کے بعد جرمنی کا آئرس ٹی نامی پہلا ایسا دفاعی سسٹم یوکرین پہنچ گیا ہے جو ابھی خود جرمن فوج کے بھی حوالے نہیں کیا گیا ہے۔
کینیڈا کی وزیر دفاع انیتا آنند نے بھی اعلان کیا ہے کہ جنگ کی بنا پر یوکرین کی فوجی و غیر فوجی مدد کی جا رہی ہے جس میں توپیں، مواصلاتی سٹیلائٹ آلات، موسم سرما کے استعمال کے کپڑے، ڈرون طیاروں کے کیمرے اور دیگر وسائل شامل ہیں ۔
برطانوی وزیر جنگ نے بھی یوکرین کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں جدید ترین میزائل، ایم آر ایم سسٹم، جو کروز میزائل تک کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے ارسال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
برطانوی وزارت دفاع کی سائٹ سے جاری کئے جانے والے بیان کے مطابق برطانیہ، یوکرین کو سینکڑوں کی تعداد میں ایسے ڈرون طیارے جو دقیق ترین اطلاعات فراہم کرنے کی توانائی رکھتے ہیں اور اسی طرح جدید ترین توپیں بھی فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ روسی حملوں کے مقابلے میں یوکرین کا دفاعی سسٹم مضبوط بنانے کے لئے یورپی اتحادیوں پر کیف کے دباؤ کے بعد یوکرین کے پچاس حامی ممالک بدھ کو ایک جگہ جمع ہوئے تاکہ جلد سے جلد یوکرین کا دفاعی سسٹم مضبوط سے مضبوط بنایا جا سکے ۔ جبکہ روس نے بارہا اعلان کیا ہے کہ یوکرین کی ہتھیاروں کی مدد اور فوجی امداد سے جنگ مزید طول پکڑے گی جس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔