جنگ یوکرین میں کامیاب ہوتا روس، یورپی ممالک آپس میں ہی بھڑے
یورپی یونین کے وزرائے توانائی، توانائی بحران کو کنٹرول کرنے کے لئے گیس کی زیادہ سے زیادہ قیمت معین کرنے میں ناکام رہے۔
سحر نیوز/ دنیا: یورپی بحران میں توانائی کمیٹی کی جانب سے توانائی کی قیمتوں کے بارے میں جو قرارداد لائی گئی، اس پر شدید اختلافات ہوگئے۔ یہاں تک کہ پولینڈ اور یونان نے قرارداد کو مذاق قرار دیا۔
امریکا اور اس کے ساتھ چھ یورپی ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ روس کی گیس اور تیل کی زیادہ تر قیمت معین کی جائے تاکہ روس اس سے زیادہ قیمت پر تیل اور گیس فروخت نہ کر پائے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روس کے خزانے کی آمدنی کم ہوگئی اور یوکرین جنگ کی صورتحال میں تبدیلی ہوگی جو گزشتہ آٹھ مہینے سے جاری ہے۔ یورپی حکومتوں کو اب صاف محسوس ہونے لگا ہے کہ امریکا نے انہیں بہت خطرناک جنگ میں جھونک دیا ہے اور اس بحران کا فائدہ امریکا اکیلے اٹھا رہا ہے اور امریکا کی ہے جس نے یورپی ممالک کے درمیان شدید اختلافات اور تنازع کے بیج بو دیئے ہیں۔
پولیٹیکو میگزین نے اپنے مقالے میں لکھا کہ یورپی حکام اب وائٹ ہاوس کی پالیسیوں پر کھلکر اپنی ناراضگی ظاہر کرنے لگے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکا، یوکرین بحرین ہی نہیں یورپ میں توانائی کے بحران کا بھی خوب فائدہ اٹھا رہا ہے کیونکہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں امریکا کے ہتھیاروں اور اسلحوں کی صنعت میں رونق پیدا ہوگئی۔ امریکا خوب جم کر ہتھیار برآمد کر رہا ہے۔
روس کے ایوان صدر کریملن ہاوس کے ترجمان نے دھمکی دی ہے کہ روس، صدر پوتن کے حکم کے مطابق اس یورپی ممالک کو کوئی گیس اور تیل نہیں بیچے گا جو روسی گیس اور تیل کی زيادہ قیمت طے کرنے کی کوشش کرے گا۔
روس کے اس سخت پیغام کا یورپ میں گہرا اثر دکھائی دیا۔ یورپی ممالک اس مسئلے پر تقسیم نظر آئے اور روسی تیل اور گیس کی قیمت طے کرنے میں پوری طرح ناکام رہے۔
یورپی ممالک کو اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی بوکھلاہٹ بالکل ظاہر ہے۔ ان کو لگ رہا ہے کہ امریکا نے جان بوجھ کر یوکرین کا بحران شروع کروایا اور اس میں پہلے روس کو کھینچا اور اس کے بعد یورپی ممالک کو اس جنگ میں بری طرح الجھا دیا۔
اشارے مل رہے ہیں کہ یورپ کی دو بڑی معیشت جرمنی اور فرانس کے درمیان اس وقت شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ توانائی کے بحران سے باہر نکلنے کے لئے دونوں ممالک اپنے اپنے مفاد کے مطابق الگ الگ حل کی جانب بڑھنا چاہتے ہيں۔
یہ راہ حال الگ الگ ہی نہیں بلکہ آپس میں تضاد بھی ہے، یہی سبب ہے کہ پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
مغرب کی پورا سرمایہ داری کا نظام ہی بازار اور اہم چیزوں کی قیمتوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ انہیں بنیاد کی وجہ سے یہ اقتصاد اور معیشت مضبوط ہوئی تھی تاہم روس کی گیس اور تیل کی قیمت معین کرنے کا مسئلہ، اس وقت بہت بڑے چیلنج میں تبدیل ہو چکا ہے۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
* مقالہ نگار کے اپنا ذاتی نظریہ ہے، سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے*