یورپ کے بڑھتے دفاعی اخراجات نے ریکارڈ توڑ دیئے
سن دو ہزار بائیس میں یورپ کے جنگی اخراجات کا حجم سرد جنگ کے دور کے اخراجات کی حدیں بھی پار کر چکا ہے۔
سحر نیوز/ دنیا: یورپ میں جنگی اخراجات کا حجم گذشتہ تین دہائیوں کا رکارڈ توڑ چکا ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال سے بڑھنے والے اخراجات کی اصل وجہ یوکرین کی جنگ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اب پولینڈ، ہالینڈ اور سوئیڈن کا نام بھی گذشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ فوجی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کی فہرست میں آگیا ہے۔
دوسری جانب یوکرین کے فوجی اخراجات سالانہ چوالیس ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو کہ کیف کی خام قومی پیداوار کے تہائی حصے پر مشتمل ہے۔ البتہ یوکرین کو مغربی ممالک کی جانب سے ملنے والی فوجی اور اسلحہ جاتی حمایت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی مالیت دسیوں ارب ڈالر پر مشتمل ہے۔ اندازوں کے مطابق، روس نے بھی اپنے دفاعی شعبے اور فوج پر سرمایہ کاری کے حجم میں نو اعشاریہ دو فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ جنگ کے ان دو فریقوں کو چھوڑ کر بھی یورپ میں فوجی اخراجات کے حجم میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق، یورپی ممالک نے گذشتہ ایک سال کے دوران مجموعی طور پر چار سو اسّی ارب ڈالر اپنے دفاعی شعبے پر خرچ کئے ہیں ۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ گذشتہ دس سال کے دوران یورپی ممالک کے دفاعی بجٹ میں تینتیس فیصد کا اضافہ ہوا تھا ۔ سیپری سے وابستہ دفاعی امور کے ماہر ڈاکٹر نان تیان نے اس بارے میں کہا ہے کہ یورپی ممالک نے یوکرین کی جنگ کے بعد ہی اپنے فوجی اخراجات بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر بعض دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ ہتھیاروں کی اس دوڑ کو ہوا دینے میں واشنگٹن کے کردار کو چھپایا نہیں جا سکتا ۔ امریکہ ایک جانب یورپ کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ کیف کو ہتھیار فراہم کرے تو دوسری جانب یورپ کو معاشی عدم استحکام کے کنوویں دھکیل رہا ہے۔
امریکہ کی جنگ پسندانہ پالیسی اور یورپی ممالک کی اندھی پیروی کے نتیجے میں ان ممالک کی واشنگٹن سے وابستگی اور امریکہ کے فوجی اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کی دولت میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ وابستگی اور تابعداری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود، یورپی ممالک امریکہ سے ایف پینتیس جیسے انتہائی مہنگے جیٹ فائٹروں کی خریداری پر مجبور ہیں اور انہیں وائٹ ہاؤس اور امریکہ کی اسلحہ ساز لابی کے سامنے سر اٹھانے تک کی اجازت نہیں ہے۔