دسیوں لاکھ بےگناہ افراد امریکہ کے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ گئے
امریکا کی یونیورسٹی آف براؤن سے وابستہ تھنک ٹینک واٹسن نے اپنی تازہ تحقیق میں اعلان کیا ہے کہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقا میں دو ہزار ایک سے اب تک دسیوں لاکھ بے گناہ انسان امریکا کے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
سحرنیوز/دنیا: براؤن یونیورسٹی کے واٹسن تھنک ٹینک کی تازہ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقا میں دو ہزار ایک سے اب تک تقریبا پینتالیس لاکھ بے گناہ افراد امریکا کے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
واٹسن تھنک ٹینک کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان میں سے چھتیس لاکھ سے سینتس لاکھ افراد جنگوں کے نتیجے میں معاشی بدحالی، فوڈ سیکورٹی کے ختم ہوجانے، حفظان صحت کے بنیادی ڈھانچوں کی نابودی، ماحولیاتی آلودگی اور جنگ کے دیگر مہلک اثرات کا شکار ہو کر زندگی سے محروم ہوئے ہیں۔
واٹسن تحقیقاتی رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ جنگوں کے بالواسطہ نتیجے میں ہونے والی اموات تباہ کن اور بہت زیادہ ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اگر جنگ نہ ہوتی تو ان میں سے بہت سی اموات کو روکا جا سکتا تھا۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ کے نتائج مغربی ایشیا، مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے عوام کے لئے انتہائی المناک تھے۔
یاد رہے کہ نائن الیون کے مشکوک حملوں کو بہانہ بنا کر اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کا اعلان کیا۔
انھوں نے اس اعلان کے ساتھ ہی جارحانہ روش اختیار کی اور افغانستان اور اس کے بعد عراق پر چڑھائی کر دی ۔رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان اور عراق پر امریکا کی چڑھائی اور قبضے کے دوران دس لاکھ سے زائد بے گناہ افراد موت سے ہمکنار ہوئے۔
عراق پر امریکی چڑھائی اور قبضے کے نتیجے میں داعش جیسے انتہائی خطرناک دہشت گرد گروہ معرض وجود میں آئے جنہوں نے عراق اور شام میں شرمناک وحشیانہ جرائم اور دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔
واٹسن تھنک ٹینک کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد کی جنگوں میں نوے لاکھ چھے ہزار سے زائد افراد مارے گئے اور تین کروڑ اسّی لاکھ سے زائد بے گھر اور مہاجرت پر مجبور ہوئے۔
امریکا کی کمان میں تشکیل پانے والے نام نہاد داعش مخالف اتحاد نے بھی مئی دو ہزار بیس میں ایک بیان جاری کر کے اعتراف کیا کہ دو ہزار چودہ کے بعد عراق اور شام میں ایک ہزار تین سو سے زائد عام شہری مذکورہ اتحاد کے ہاتھوں مارے گئے۔
البتہ ان اعدادوشمار کو غیر جانبدار اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے قبول نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے نام نہاد داعش مخالف اتحاد کی کارروائیوں میں اس سے کہیں زیادہ بے گناہ افراد مارے گئے ہیں۔
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ صرف دو ہزار سترہ میں شہر رقہ کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کے آپریشن میں ایک ہزار چھے سو سے زائد عام شہری مارے گئے اور شدید ہوائی حملوں اور گولہ باری میں نوے فیصد سے زیادہ شہر تباہ ہوگیا لیکن امریکا کو اپنی ان فوجی یلغاروں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اور دو ہزار اکیس میں اس کو مکمل ناکامی کے ساتھ افغانستان سے نکلنا پڑا ۔
امریکا کے تحقیقاتی مرکز رینڈ کے تجزیہ نگار جیمز ڈوبنز کہتے ہیں کہ امریکا افغانستان سے جس طرح نکلا ہے اس پر بہت سے اعتراضات صحیح ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مداخلت کی امریکی پالیسی شروع سے ہی غلط تھی۔
امریکا نے افغانستان سے تو اپنے فوجیوں کو نکال لیا ہے لیکن عراق اور شام میں اس کےفوجی اب بھی موجود ہیں جبکہ ان جنگوں میں ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق امریکا کو سات کھرب ڈالر سے زیادہ کا خرچ برداشت کرنا پڑا ہے۔
واٹسن تھنک ٹینک کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق دو ہزار ایک سے دو ہزار بیس تک امریکی وزارت جنگ پنٹاگون کا پچاس فیصد بجٹ جو چودہ کھرب ڈالر بنتا ہے، امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں اور ٹھیکداروں کو ملا ہے اور اس میں سے چار اعشاریہ چار کھرب ڈالر کی رقم امریکا کی فوجی صنعت کے حصے میں آئی ہے۔
بین الاقوامی مبصر اور تاریخ داں چارلز اسٹروزیر کا کہنا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات نے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بہت عمیق بحران پیدا کیا جس کے بعد واشنگٹن کا ردعمل ایک زخمی درندے کا تھا اور اس نے دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ شروع کی جو اس کے لئے دلدل ثابت ہوئی اور اس نے ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکا کے زوال کی رفتار بڑھا دی۔