Jun ۲۴, ۲۰۲۳ ۱۵:۱۴ Asia/Tehran
  • ملک کو غداری کا سامنا کرنا پڑا، باغیوں سے سختی سے نمٹا جائے گا: ولادیمیر پوتین

ویگنر گروہ اور روسی فوج کے درمیان شدید کشیدگی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے روس کے صدر نے کہا ہے کہ ملک کو غداری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سحرنیوز/دنیا: روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے ہفتے کے روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک ہنگامی تقریر کے دوران اختلافات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ اختلافات دور نہ ہوئے تو دشمن اس کا غلط فائدہ اٹھائیں گے۔ روس کے صدر نے ویگنر گروہ کی بغاوت کو یوکرین میں بر سر پیکار فوجیوں کی قربانیوں سے غداری قرار دیا ہے۔
پوتین نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ویگنر گروہ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب روس کو ایک سخت جنگ کا سامنا  ہے، کسی بھی مجرمانہ مہم جوئی سے پرہیز کریں۔
روس کے صدر نے کہا کہ مسلحانہ بغاوت، پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اور ہم پوری طاقت سے اپنا دفاع کریں گے۔
ولادیمیر پوتین نے مسلحانہ بغاوت میں ملوث افراد سے ٹھوس انداز میں پیش آنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس بغاوت سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
انہوں نے ماسکو اور کئی دیگر صوبوں میں اینٹی ٹررزم حالات کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ روستوف میں امن بحال کرنے کے لئے ضروری قدم اٹھائے جائیں گے۔
انہوں نے ویگنر گروہ اور اس کے کمانڈر  کے موقف اور اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کی مفاد پرستی کا نتیجہ ملک سے غداری کی شکل میں سامنے آیا ہے جس کے سامنے ہم اپنے ملک اور اپنے عوام کا دفاع کریں گے۔ روس کے صدر نے اندرونی بدامنی کو ملک کے لئے سنجیدہ خطرہ قرار دیا۔
ادھر ویگنر گروہ کے کمانڈر یوگنی پریگوژین نے ہفتے کے روز دعوی کیا کہ ان کے فوجیوں نے عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے روسی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا ہے۔
پریگوژین نے یہ بھی دعوی کیا کہ روس کی فوج نے ویگنر گروہ کو نشانہ بناکر اس کے دو ہزار مسلح ارکان کو ہلاک کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویگنر گروہ کے نیم فوجی دستے یوکرین کا محاذ چھوڑ کر روستوف میں داخل ہوگئے ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق یہ کرائے کے فوجی روس کی فوج سے مقابلے کے لئے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے اس سے قبل ہمیشہ ویگنر گروہ کی حمایت کی تھی تاہم روس کی وزارت دفاع اور فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس گروہ اور اس کے کمانڈر نے میدان جنگ میں بدنظمی اور خودسری کی ہے اور وزارت دفاع کے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت اگست دو ہزار تیئس تک تمام نیم فوجی دستوں کو روس کی فوج میں شامل ہونے کو کہا گیا تھا۔
یاد رہے کہ پریگوژین نے روس کی وزارت دفاع کے اس حکم کو مسترد کیا تھا جس کے بعد پوتین نے جنرل شوئیگو کے حق میں اور ویگنر کے خلاف موقف اختیار کیا۔
ہمارے نمائندے نے جو فوٹیج بھیجے ہیں ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دارالحکومت ماسکو، بالخصوص کریملن اور وزارت دفاع کے اطراف کی سڑکوں پر مغربی ذرائع کے دعووں کے برخلاف عام زندگی جاری ہے اور مکمل امن و امان برقرار ہے۔
ان فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صدراتی محل کے اطراف میں نہ تو کوئی ٹینک کھڑا دکھائی دے رہا ہے نہ ہی کوئی بکتربند گاڑی۔
قابل ذکرہے کہ ویگنر گروہ کی بنیاد سن دو ہزار چودہ میں یوگنی پریگوژین نے ڈالی تھی جو اس سے قبل صدارتی محل کے باورچیوں کے ہیڈ تھے۔
سن دو ہزار چودہ میں اس گروہ میں شامل افراد کی تعداد ڈھائی سو تھی جو کہ دسمبر دو ہزار بائیس تک بڑھ کر پچاس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
ویگنر گروہ ہلکے اور بھاری زمینی اور فضائی فوجی وسائل سے بھی لیس ہے اور اس سے قبل اس گروہ کو روس کے سلامتی نظام میں بھی خاص اہمیت حاصل تھی۔
ادھر پریگوژین نے دعوی کیا ہے کہ وہ ماسکو کی جانب پیش قدمی کے لئے تیار ہو رہے ہیں جہاں وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ کو ان کے بقول گرفتار کرکے ان کے خلاف غداری کے الزام میں عدالتی کاروائی چلائی جائے گی۔
پوتین کے دو ٹوک موقف کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر پریگوژین اپنے موجودہ موقف پر قائم رہے تو انہیں روس کی مسلح افواج کے انتہائی سخت رویے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ویگنر گروہ میں روسی فوج کے مقابلے کے لئے ضروری طاقت اور وسائل کا فقدان بھی پایا جاتا ہے۔

ٹیگس