Jan ۱۷, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۴ Asia/Tehran
  • ٹرمپ اور ایران کے خلاف پابندیاں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ جمعے کو ایران کے خلاف پابندیوں کے التواء پر دستخط کر کے کانگریس کو ایک بار پھر وقت دیا ہے کہ بقول ان کے ایٹمی سمجھوتے کو بہتر بنانے کی غرض سے تبدیلیاں لانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔

ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگرایسا نہ ہوا تو امریکہ ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل جائے گا البتہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس مدت میں وہ موقع کو ہاتھ سے نہیں نکلنے دیں گے اور ایران پر مزید پابندیوں پرعمل درآمد شروع کردیں گے- اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ جنوری کے آخر تک ایران کے ریڈیو ٹی وی کے ادارے آئی آر آئی بی سے متعلق پابندیوں کو معلق کرنے کے فرمان پر دستخط نہیں کریں گے- ان پابندیوں میں سیٹ لائٹ چینلوں کو مسدود کرنا، دیگرممالک میں ایران کے قومی ذرائع ابلاغ کے دفاتر کو کام نہ کرنے دینا شامل ہے- ایسا نظر آتا ہے کہ ان پابندیوں سے قومی ذرائع ابلاغ کو تجارتی شعبے میں ٹیلی ویژن اور سینما کے پروڈکٹ کی خریداری میں بھی رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے اور تکنیکی میدان میں، اولمپیک کھیلوں اور عالمی مقابلوں کو براہ راست نشر کرنے کا امکان ختم ہو جائے گا- اس صورت میں واضح ہے کہ اس سازش کو تیار کرنے والوں کا ممکنہ مقصد اندرون ملک ناراضگی پیدا کرنا ہے-

بین الاقوامی امور کے ماہر حسن بہشتی پور اس اقدام کو امریکہ کا سیاسی پروپیگنڈہ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ : آئی آر آئی بی پر پابندیوں کی سازش حیرت انگیز ہے جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی البتہ ماضی میں سحر اور العالم ٹی وی چینل پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن اس امر کے پیش نظر کہ آئی آر آئی بی کی اکسٹرنل سروس جن بعض سیٹ لائٹوں سے اسفتارہ کرتی ہے وہ ایشیائی اور یورپی ممالک سے متعلق ہے اور وہ  سینگل بھیجنے کے پابند ہیں، امریکہ کا یہ دعوی ناقابل عمل ہے-

ذرائع ابلاغ کے امور کے ماہر فواد ایزدی کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس، سامراجی پالیسیویں کے مخالف ملکوں اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے میں کسی طرح کی پس و پیش سے کام نہیں لیتی اور کسی بھی بہانے پابندیاں عائد کردیتی ہے- تہران یونیورسٹی کے فیکلٹی رکن پروفیسر محمد صادق کوشکی نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ امریکہ پابندیوں کے ذریعے آئی آرآئی بی کے ٹیکنیکل اور سینگل سے متعلق امور میں بالواسطہ طور پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے- البتہ ان تکنیکی بیانات کے بیچ ذرائع ابلاغ و مواصلات کے میدان میں بین الاقوامی حقوق کے تحفظ سے متعلق عالمی اداروں کے کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے-

آئی آر آئی بی پر اب تک دو بار اس طرح کا حملہ کیا جا چکا ہے جس میں سیٹ لائٹ اور ذرائع ابلاغ سے متعلق معاہدوں کی مدت بڑھانے میں خلل ڈالنے سے لے کر بین الاقوامی اجلاسوں میں ایران کی موجودگی کو روکنا بھی شامل ہےاور پابندیوں کے زمانے میں باربار ایسا کیا گیا ہے- عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ اس وقت شفاف موقف اختیار کرے-اس سلسلے میں خاموشی ، ذرائع ابلاغ اور مواصلات کے میدان میں ایک غیراصولی اقدام ہے- اگر یہ پابندیاں بین الاقوامی پہلو اختیار کرلیں گی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خودمختار ملکوں کے امور میں براہ راست مداخلت کا کھلا مصداق ہوں گی-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں جب کسی بھی ملک میں پرامن یا بدامن مظاہرے ہوتے ہیں، احتجاج ہوتے ہیں یا عوامی مطالبات کئے جاتے ہیں تو بین الاقوامی صحافتی فیڈریشن اس ملک کے ذرائع ابلاغ کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے لیکن اس طرح کے اقدامات کہ جو صحافتی امور میں خلل پیدا کرتے ہیں توجہ نہیں دی جاتی -

ٹیگس