Dec ۱۴, ۲۰۱۸ ۱۱:۴۲ Asia/Tehran
  • قلب اسرائیل پر فلسطینیوں کا شدید حملہ، پورے اسرائیل میں خوف و ہراس + مقالہ

جمعرات کا دن فلسطین کے لئے بڑے اہم واقعات کا دن ثابت ہوا۔ صبح کو خبر موصول ہوئی کہ اسرائیلی فوجیوں نے تین الگ الگ حملوں میں تین فلسطینیوں کو شہید اور کئی ديگر کو گرفتار کر لیا ۔

اسرائیلی فوجیوں نے اشرف نعالوۃ نامی فلسطینی کو نابلس شہر کے مشرق میں پناہ گزین کیمپ کے پاس شہید کر دیا۔  نعالوۃ نے ایک حملے میں کم از کم دو اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور اسرائیلی فوج دو مہینے سے اس جوان کی تلاش میں تھے ۔

اسرائیلی فوجیوں نے رام اللہ کے شمال میں سردہ شہر میں فائرنگ کرکے صالح عمر البرغوثی نامی جوان کو بھی شہید کر دیا ۔ اسرائیلی فوجیوں کو شک تھا کہ البرغوثی نے اس سے پہلے اسرائیلیوں پر حملہ کیا تھا ۔

بیت المقدس میں بھی اسرائیلی فوجیوں نے ایک دیگر فلسطینی جوان کو شہید کر دیا۔ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی شہادت کے بارے میں اسرائیلی حکام تبادلہ خیال کر رہے تھے اور اپنے کامیاب منصوبے پر تعریفیں لوٹ رہے تھے کہ در ایں اثنا ایک فلسطینی جوان نے مغربی کنارے کے علاقے میں ایک بس اسٹاپ کے پاس حملہ کرکے تین اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ فلسطینی جوان نے اپنی گاڑی سے رام اللہ کے مشرق میں واقع ایک صیہونی بستی کے نزدیک بنے بس اسٹاپ کے پاس اپنی گاڑی روکی اور وہاں موجود صیہونیوں پر فائرنگ کر دی ۔ اس حملے میں کئی دیگر صیہونی زخمی بھی ہوگئے ۔

تحریک حماس کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے کے علاقے میں مزاحمت کا آغاز ہو گیا ہے اور اسے ہرگز ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ اسرائیل کو حال ہی میں غزہ میں فوجی آپریشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن مغربی کنارے کے علاقے میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ اسرائیل کے لئے بہت بڑی مصیبت بن گئے ہیں ۔ اس لئے کہ اسرائیل، فلسطینی انتظامیہ کی مدد سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ اس علاقے میں کسی بھی طرح کی مزاحمت شروع نہ ہو تاہم فلسطینی تنظیموں کی کوششیں ہیں کہ مغربی کنارے کے علاقوں میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت تیز کی جائے ۔ اس علاقے میں اسرائیلیوں پر ہتھیاروں سے حملہ ہونا بہت بڑا واقعہ ہے کیونکہ اسرائیل کی کوشش ہوتی ہے کہ اس علاقے میں فلسطینیوں کو کسی بھی طرح کے ہتھیار نہ ملنے پائیں۔ اس علاقے میں فلسطینی سیکورٹی اہلکاروں سے اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیان برسوں سے ہماہنگی ہے کہ فلسطینی تنظیموں کو کسی بھی طرح کی مسلحانہ سرگرمیاں انجام دینے کا موقع نہ ملے تاہم اس علاقے میں جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان سے اسرائیل کے سارے اندازوں پر پانی پھرتا نظر آ رہا ہے۔

جمعرات کے واقعے سے پہلے بھی دو اہم واقعات رونما ہوئے جن سے اسرائیلی سیکورٹی اہلکاروں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے۔ ایک واقعہ تو وہی ہے جو اشرف نعلوۃ نے انجام دیا تھا۔ اس فلسطینی جوان نے مغربی کنارے کے علاقے میں شمالی سلفیت کے قریب برکان نامی صنعتی کامپلیکس کے اندر انجام دیا تھا۔ اس حملے میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے اور تیسرا زخمی ہو گیا تھا ۔

دوسرا واقعہ تین دن پہلے عوفر کے علاقے میں پیش آیا جب کچھ ہتھیار بند افراد نے اسرائیلیوں کے ایک گروہ پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں سات اسرائیلی زخمی ہوئے اور حملہ کرنے والے فلسطینی جوان بڑی آسانی سے وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔

اسرائیلیوں کو سب سے زیادہ خوف یہ ہے کہ مغربی کنارے کے علاقے میں بھی چاقو سے حملے کے بجائے اب بندوقوں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ حملے بڑے دقیق منصوبے سے انجام دیئے جاتے ہیں ۔ عوفر میں جس جگہ پر حملہ کیا گیا اس کے قریب ہی اسرائیلی فوجی موجود تھے لیکن حملہ آوروں کو ان کا کوئی خوف نہیں تھا ۔

بالکل واضح ہے کہ تحریک حماس مغربی کنارے کے علاقے میں اہم اسٹریٹیجی پر کام کر رہی ہے ۔ اس علاقے میں اسرائیلیوں پر حملے تیز ہوئے تو یقینی طور پر غزہ پٹی پر دباؤ کم ہوگا، دوسرے یہ کہ ان علاقوں میں غیر قانونی طریقے سے آباد اسرائیلیوں کا انخلاء ہو سکے گا اور تیسرے فلسطینی انتظامیہ کے ان سیکورٹی اہلکاروں کو بھی باہر نکالا جا سکے گا جنہوں نے اسرائیلی فوج کے ساتھ ہماہنگی کر رکھی ہے ۔

اسرائیل کے چیف آف آرمی اسٹاف غازی ایزنکوٹ نے کابینہ کو خبردار کیا ہے کہ حماس نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں کام کرنا شروع کر دیا ہے اور ستمبر سے اب تک کم از کم 10 حملے اس نے کئے ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے ۔

جہاں سعودی عرب، امارات اور قطر جیسے ممالک اسرائیلی حکام کے لئے اپنے دروازے کھول رہے ہیں اور اسرائیل سے دوستی کے لئے قربان ہوئے جا رہے ہیں وہیں فلسطین میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کا لاوا پک رہا ہے۔ اب اسرائیل سے فلسطینیوں کی جنگ کا میدان نابلس، الخلیل، جنین، طولکرم، رام اللہ اور مغربی کنارے کے دیگر شہر اور دہی علاقے ہوں گے اور یہ اسرائیل سے دوستی کرنے کی عرب حکومتوں کی کوششوں پر فلسطینیوں کا بہترین جواب ہوگا ۔

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان، مشہور عرب تجزیہ نگار

ٹیگس