افغانستان کے عوام اپنا ملک چھوڑ کر نہ جائیں: طالبان
افغانستان کو بدامنی کا سامنا ہے دریں اثناء طالبان نے ایک بیان جاری کرکے افغان عوام سے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے نقل مکانی نہ کریں۔ انہوں نے پناہ گزینوں سے متعلق تنظیموں سے بھی کہا ہے کہ اس گروہ کی جانب سے تارکین وطن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
طالبان نے اپنے بیان میں دعوی کیا ہےکہ بعض تارکین وطن افغانستان سے جانےاور دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے لئے طالبان کے خطرے کو بہانہ بناتے ہیں جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
افغانستان کے مختلف حلقوں کے نزدیک طالبان کا یہ دعوی کہ ان کی جانب سے افغان شہریوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے افغانستان کے حقائق سے تضاد رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے پاپولیشن فنڈ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں چوہتر لاکھ افراد کو جنگ اور قدرتی آفات کی وجہ سے فوری طور پر انسان دوستی پر مبنی امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے دوران تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار افغان شہری بے گھر ہوچکےہیں اور طالبان نے چار ماہ قبل افغانستان کےصوبہ قندوز پر جو حملہ کیا تھا اس کے باعث تیرہ ہزار افراد اپنے گھربار چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں منتقل ہوگئے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں آیا ہے کہ ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں کے دوران افغانستان میں جنگ کے باعث تقریبا نو سو عام شہری مارے گئے ہیں جن میں ایک سو بائیس خواتین تھیں۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ افغانستان میں زندگی گزارنے کے لئے امن و امان کی ضرورت ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ طالبان نے مختلف صوبوں پر حملے کر کے نہ صرف افغان عوام کا امن و سکون چھین لیا ہے بلکہ امن مذاکرات کے از سر نو آغاز کی مخالفت کی وجہ سے افغانستان کے حالات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے عوام بڑی تعداد میں اس ملک سے نقل مکانی کر رہے ہیں جن میں سرمایہ دار، تاجر اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر بھی شامل ہیں اور ان کے ملک چھوڑنے سے افغانستان کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔
بنابریں طالبان افغانستان میں اپنے حملے جاری رکھ کر اور بدامنی پھیلا کر اس ملک کے اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔
دریں اثناء دہشت گرد گروہ داعش بھی منظر عام پر آگیا ہے ۔ اس دہشت گرد گروہ کی جانب سے بحران پیدا کئے جانے نیز طالبان کے ساتھ اس گروہ کی جھڑپوں کے باعث افغانستان میں جاری بدامنی اوربحران میں شدت پیدا ہوئی ہے۔
حتی کہ افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن نے حال ہی میں کہا ہے کہ سنہ دو ہزار نو سے دو ہزار پندرہ تک تقریبا بارہ لاکھ افغان شہری افغانستان میں بے گھر ہوچکے ہیں جن کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔
طالبان ایسی حالت میں بیان جاری کر کے اپنے آپ کو افغان عوام کا محافظ ظاہر کر رہا ہے کہ جب اس گروہ کے عناصر ہلمند سمیت مختلف شہروں پر قبضے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ جنوبی افغانستان میں واقع صوبہ ہلمند کے ڈپٹی گورنر محمد جان رسول نے افغان صدر محمد اشرف غنی سےکہہ دیا ہے کہ اس صوبے پر طالبان کے قبضے کا امکان پایا جاتا ہے۔
اس لئے افغان عوام کا کہنا ہےکہ اس ملک کے عوام کے نزدیک طالبان کی ساکھ اس گروہ کی جانب سے بیان جاری کرنے سے نہیں بلکہ قیام امن میں مدد دینے کی صورت میں بہتر ہوسکتی ہے اور اس بات کے لئے ضروری ہے کہ طالبان اپنے ہتھیار پھینک کر افغانستان امن عمل میں مدد دیں۔