Feb ۱۶, ۲۰۱۶ ۱۶:۳۹ Asia/Tehran
  • شام میں ترکی کی فوجی کارروائی پر تنقید

ترکی کی وزارت خارجہ نے شام میں مسلح گروہوں کے ٹھکانوں پر روسی فضائیہ کے حملوں کے خلاف جاری نفسیاتی اقدام کے تحت، ایسی حالت میں ماسکو پر شام میں اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملہ کرنے کا الزام لگایا ہے کہ روس میں شام کے سفیر ریاض حداد نے ان مقامات پر حملے کا اصل ذمہ دار، امریکہ کی زیر قیادت اتحاد اور ترکی کو قرار دیا ہے۔

ترکی کے ذرائع ابلاغ نے بھی اپنے ملک کی وزارت خارجہ کے بیان سے یکسوئی کے ساتھ ماسکو پر شام میں جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے۔

پیر کے روز دو اسکول، ایک ہسپتال اور تنظیم ڈاکٹرز ودھ آؤٹ باڈرز سے متعلق ایک طبی مرکز پر ہونے والے حملے میں درجنوں افراد مارے گئے ہیں۔

روس اور ترکی کی جانب سے اس حملے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیا جا رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں ترکی کے ذرائع ابلاغ نے رائے عامہ اور بین الاقوامی اداروں کو متاثر کرنے کی غرض سے اپنے ملک کے سرکاری موقف سے یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دیا ہے اور شام کے شمالی علاقوں میں جنگی محاذوں کی خبروں کو منعکس کیا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ آزاد پریس ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ ترکی کی فوج نے شام کی کرد ملیشیاء کے ٹھکانوں پر تیسرے روز بھی گولہ باری جاری رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ گیارہ فروری کو منغ ایر پورٹ کی آزادی اور ترکی کی سرحد کے قریب اعزاز شہر کی طرف کرد ملیشیاء کی پیش قدمی کے بعد ترکی کی فوج نے اس علاقے اور شمالی حلب کے علاقوں میں کرد ملیشیاء کے ٹھکانوں پر گولہ باری شروع کر دی ہے۔

جبکہ شام کی کرد ملیشیاء نے اعلان کیا ہے کہ اس کی کارروائی کا مقصد، داعش دہشت گردوں کا دائرہ تنگ کرنا ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے شام میں کرد ملیشیاء کے ٹھکانوں پر گولہ باری جاری رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقرہ، شام کے شہر اعزاز پر کرد ملیشیاء کو مسلط نہیں ہونے دے گا۔

روس نے بھی امریکہ کو خبر دار کیا ہے کہ ترکی کو اس قسم کے اقدامات سے باز آنا ہو گا۔

علاقے کے سیاسی حلقے، شامی فوج کے خلاف مغربی ملکوں اور ترکی نیز سعودی عرب جیسے ان کے اتحادیوں کی متحدہ سیاسی اور عملی اقدام کی وجہ، شامی فوج کی ان کامیابیوں کو قرار دیتے ہیں، جو اس نے دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں حاصل کی ہیں۔

اس رو سے روس کے انٹیلی جینس ادارے کے سابق سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ ترکی اور سعودی عرب کی فوجیں، اگر شام کے علاقے میں داخل ہوتی ہیں تو روسی لڑاکا طیارے، ممکنہ طور پر ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

نیکولائی کوو الیوف نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے حکام، اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے ملکوں کی فوجیں اگر شام کے علاقے میں داخل ہوتی ہیں تو روس کے لڑاکا طیارے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

جبکہ روس نے آج منگل کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شامی کردوں پر ترکی کے حملے کے مسئلے کو اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ بعض سیاسی حلقے، شمالی حلب کے علاقوں اور شامی کردوں کے ٹھکانوں پر ترک فوج کی جاری گولہ باری کی وجہ، ان علاقوں میں کردوں کا اثر و رسوخ روکنے کے لئےانقرہ کی کوششوں سے غیر مربوط نہیں سمجھتے۔

خاص طور سے ایسی صورت میں کہ کہا جاتا ہے کہ شامی کرد گروہوں کے ساتھ دمشق حکومت کے سمجھوتے کے تحت دہشت گردوں کے قبضے سے شام کے کرد علاقوں کی آزادی کے ساتھ ہی مقامی اسمبلیاں تشکیل دی جائیں گی اور ان علاقوں کا نظم و نسق کنفیڈریشن کی شکل میں چلایا جائے گا۔

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جسے ترکی، اپنے ملک کی کرد قوتوں اور کردستان لیبر پارٹی کی تقویت کا راستہ ہموار ہونے کا باعث سمجھتا ہے۔

دوسری جانب شام کی تبدیلیوں میں ترکی کی سیاسی مداخلت کی بدنامی اور اس تعلق سے ترکی کی خارجہ پالیسی کی شکست سے، ترکی کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا ہے کہ وہ، شام میں بشار اسد کے مخالف مسلّح اور تکفیری گروہوں کی سیاسی و عملی حمایت کرے۔

جبکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے کہ جس سے، ترکی بین الاقوامی حمایت حاصل کر کے اپنی پالیسی، سلامتی اور معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ترک فوج کی جانب سے شام میں حلب کے شمالی علاقوں، تعلیمی و طبی مراکز پر گولہ باری اور شمالی حلب کے واقعات کے بارے میں من گھڑت خبروں کے لئے ذرائع ابلاغ سے استفادہ کئے جانے کے ساتھ ساتھ مذکورہ علاقوں پر حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دیا جانا، شام میں توازن اور تبدیلی کا نتیجہ تبدیل کرنے کے لئے ترکی کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔

ایک ایسی حکمت عملی، کہ جس کے مختلف پہلو، ترک حکام کے لئے ممکن ہیں پنہاں ہوں مگر علاقے کے سیاسی حلقوں کے لئے ترکی کی اس پالیسی کی ناکامی مکمل طور پر واضح ہے۔

ٹیگس