سنگاپور میں ظریف کی ڈپلومیسی، آسیان یونین ایٹمی معاہدے کی حامی
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے سنگاپور میں وسیع مذاکرات انجام دیئے ہیں اور اس سلسلے میں سنگاپور کے صدر اور وزیر خارجہ اور آسیان کے ممبر ملکوں کے بعض وزرائے خارجہ سے بھی ملاقات اور گفتگوکی ہے-
محمد جواد ظریف نے کہ جو جنوب مشرقی ایشیا کی یونین آسیان کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اکیاون ویں اجلاس میں شرکت کے لئے سنگاپور کے دورے پر ہیں جمعرات کو اجلاس میں شریک مختلف ملکوں کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی اور جمعے کو بھی وہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی سے ملاقات کریں گے- جنوب مشرقی ایشیا میں محمد جواد ظریف کے ڈپلومیسی کا اصلی محور، ایٹمی معاہدہ اور اس معاہدے سے امریکہ کے غیر قانونی طور پر نکل جانے کے باجود اس بین الاقوامی معاہدے کی حفاظت ہے- ڈآکٹر جواد ظریف کے ساتھ ملاقاتوں میں ایٹمی معاہدے سے متعلق مختلف ملکوں کی حمایت سے واضح ہوجاتا ہےکہ امریکی حکمرانوں کی جو ذہنیت ہے، اس سے دنیا کے ممالک خود کو بری سمجھتے ہیں -
قابل ذکر ہے کہ جواد ظریف نے جمعرات کو جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی تنظیم آسیان کے ساتھ دوستی اور تعاون کے سمجھوتے، ٹی اے سی پر دستخط کردیئے ہیں اس موقع پر انہوں نے سنگاپور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے آسیان اجلاس میں شریک مختلف ملکوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی جانب اشارہ کیا ، اور دنیا کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آسیان کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ایران اور اس تنظیم کے رکن ملکوں کے درمیان تعلقات کے فروغ کا بہترین موقع ثابت ہوا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ آج امریکہ کے اتحادی ممالک بھی واشنگٹن کے وعدوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے واضح کیا کہ انہوں نے سنگاپور میں جن ملکوں کے عہدیداروں سے ملاقات کی ہے سب ہی نے امریکی پالیسیوں کی پیروی نہ کرنے اور جامع ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
آسیان کے دوستی اور تعاون کے سمجھوتے میں ایران کی شمولیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اس دستاویز پر دستخط کے بعد ایران باضابطہ طور پر اس سمجھوتے میں شامل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھوتہ در اصل دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی جانب اہم قدم ہے۔ آسیان کے تمام ملکوں کی جانب سے دوستی اور تعاون کے سمجھوتے میں ایران کی شمولیت کی بھرپور حمایت، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں اہم اور موثر طاقت کی حیثیت سے ایران کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ایران کی پارلیمنٹ نے کچھ عرصے قبل آسیان کے ساتھ دوستی اور تعاون کے معاہدے ٹی اے سی میں شمولیت کی منظوری دی تھی۔یہ معاہدہ فروری انیس سو چھیہتر میں طے پایا تھا اور اب تک دنیا کے تیس ممالک اس معاہدے میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام، کمبوڈیا، فلپائن، سنگاپور، میانمار، لاؤس اور برونئی آسیان کے رکن ممالک ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے سنگاپور میں اپنے قیام کے دوران روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف سے بھی ملاقات کی ہے جس میں باہمی اقتصادی تعلقات کے فروغ کے علاوہ ایٹمی معاہدے سے جڑے معاملات، کیسپیئن سی کی صورتحال اور شام کے حالات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔اس سے پہلے ایران کے وزیر خارجہ نے آسیان اجلاس میں شریک فلپائن، سنگاپور، ناروے، ملائیشیا، جاپان اور ویتنام کے وزرائے خارجہ اور سنگاپور کے وزیراعظم کے ساتھ الگ الگ ملاقات اور گفتگو کی تھی۔
ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ مختلف ملکوں کے حکام کی ہونے والی ملاقاتوں سے ثابت ہوجاتا ہے کہ دنیا بدستور دوطرفہ احترام اور باہمی تعاون کی حامی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ پسندی کا آج دنیا میں کوئی حامی نہیں ہے- سنگاپور میں ڈاکٹر جواد ظریف کے ساتھ مختلف ملکوں کے حکام کی ہونے والی ملاقاتوں میں ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر تاکید کی گئی جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ دنیا کے ملکوں کی سوچ اور فیصلے، امریکی سوچ اور فیصلوں کے برخلاف ہیں- اسی سبب سے ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کو ایک وحشتناک معاہدہ قرار دینے، اور اس معاہدے سے نکل جانے کے اقدام کی، جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں نے حمایت نہیں کی ہے-
آسیان کے ملکوں کی کوشش ہے کہ استقامت و جدت طرازی کے ذریعے دیگر ملکوں منجملہ ایران کے ساتھ امریکی پابندیوں کے دور میں بھی اپنے اقتصادی تعلقات کو تقویت پہنچائیں- اسلامی جمہوریہ ایران کے توسط سے ایٹمی معاہدے کی پابندی میں نیک نیتی، اور عالمی امن و سلامتی کے قیام میں اس کی حقیقی کوششیں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ عالمی برادری ایران پر اعتماد کرتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو دوجانبہ اور چند جانبہ تعلقات کی حفاظت میں اہم عنصر شمار ہوتا ہے اور یہی طرزعمل امریکہ کے توسط سے ایران کے تیل کو صفر تک پہنچانے کی پالیسی کے عملی ہونے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے-