Dec ۲۸, ۲۰۱۸ ۲۰:۰۱ Asia/Tehran
  • سعودی عرب کی کابینہ میں نئی تبدیلیوں کی لہر اور اس ملک کا مبہم سیاسی مستقبل

سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے جمعرات کو کابینہ میں تبدیلی کے جاری کردہ فرمان کے بعد نئی تبدیلیاں وجود میں آئی ہیں-

 سعودی بادشاہ کے جاری کردہ فرمان کے مطابق ابراہیم العساف ملک کے نئے وزیر خارجہ ہوں گے، جبکہ عادل الجبیر شاہ سلمان کے مشیر ہوں گے۔ سلمان بن عبدالعزیز نے اس ملک کی کابینہ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں انجام دینے کے علاوہ ولیعہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب کی سیاسی اور سیکورٹی کونسل کے ڈھانچے میں نظر ثانی کا حکم بھی جاری کیا ہے- شاہ سلمان نے ولی بن سلمان کی صدارت والی سیاسی اور سیکورٹی کونسل میں بھی لازمی تبدیلیوں کا حکم جاری کرتے ہوئے مساعدالعیبان کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا ہے۔

شاہ سلمان کےجاری کردہ حکم نامے میں عبداللہ بن بندر بن عبدالعزیز کو شاہی گارڈ کا وزیر، ترکی الشبانہ کو وزیر اطلاعات اور حمد آل الشیخ کو وزیر تعلیم بنایا گیا ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ نے لندن میں متعین اپنے ملک کے سفیر محمد بن نواف بن عبدالعزیز بن سعود کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا ہے۔ ایک اور حکم کے ذریعے عسیر کے گورنر فیصل بن خالد کو برطرف اور ترکی بن طلال کو ان کی جگہ گورنر بنادیا گیا ہے۔ وزیر سیاحت سلطان بن سلمان کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ سعودی ولی عہد نے ایک بار پھر اپنے چچازاد بھائی خالد بن طلال بن عبدالعزیز کو گرفتار کرودایا ہے۔

سعودی کابینہ میں وسیع پیمانے پر انجام پانے والی تبدیلیوں کی وجہ، اس ملک کی دہشت گردانہ پالیسیوں کی شکست و ناکامی، مخالف صحافی جمال خاشقجی قتل کے سبب ملنے والی ذلت و رسوائی کے اس ملک کے ڈھانچے پر پڑنے والے منفی اثرات، اور اس ملک کی جارحانہ خارجہ پالیسیوں کی ناکامی ہے کہ جس کا عالمی ذرائع ابلاغ میں وسیع پیمانے پرانعکاس ہوا ہے اور علاقائی و عالمی سطح پر سعودی عرب کی پوزیشن متاثر ہوئی ہے- چنانچہ ابھی بھی سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اس قتل کے بحران سے نکل نہیں سکے ہیں-

ان حالات میں آل سعود، کابینہ میں تبدیلیاں لاکر اور سیاسی مہروں کو جا بجا کرکے بحران پر کنٹرول پانے کی سعی لاحاصل کر رہی ہے اور اسی تناظر میں سعودی حکام نے سیاسی مہروں کو تبدیل کرنے کا اقدام کیا ہے اور اس ملک کے وزیر خارجہ عادل الجیبر کو برطرف کرکے ابراہیم العساف کو وزیر خارجہ مقرر کیا ہے- اہم نکتہ یہ ہے کہ العساف سعودی عرب کے وزیر خزانہ تھے اور وہ بھی ان افراد میں شامل تھے کہ جنہیں بن سلمان نے "رٹز کارلٹن" ہوٹل میں قید کروایا تھا اور پھر جنوری 2018 میں انہیں وہاں سے رہائی ملی-

بہت سے مبصرین محمد بن سلمان کے حریفوں اور مخالفین کے بتدریج مضبوط ہونے اور ان کے قریبی افراد کے اقتدار سے بے دخل کئے جانے کے پیش نظر ان تبدیلیوں کو ہر چیز سے زیادہ سعودی عرب کے سیاسی ڈھانچے میں محمد بن سلمان کی طاقت کے کمزور ہونے کی علامت قرار دے رہے ہیں- 

مشرق وسطی میں سیاسی مسائل کے ماہر رضا میرابیان نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اچانک انجام نہیں پائی ہیں کہا کہ محمد بن سلمان کی کابینہ میں انجام پانے والی تبدیلیاں کوئی اچانک کا فیصلہ نہیں ہے، بلکہ بن سلمان کی بادشاہت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے ایک سوچا سمجھا اقدام ہے اور ساتھ ہی محمد بن سلمان یہ بھی اعلان کرنا چاہتے ہیں خاشقجی قتل کے جتنے قصوروار تھے ان سب کو برطرف کردیا گیا ہے اور بن سلمان کا خاشقجی قتل میں کوئی کردار نہیں ہے اور وہ بے قصور ہیں- 

بعض سیاسی مبصرین نے کابنیہ میں انجام پانے والی تبدیلیوں کو ایک طرح کا نمائشی اقدام اور محمد بن سلمان کی آگے کی سمت فرار کی پالیسی جاری رکھنے سے تعبیر کیا ہے- کیوں کہ ان منصوبہ بند تبدیلیوں کا مقصد بھی محمد بن سلمان کو خاشقجی قتل کیس سے بری کرنا اور اس ملک کے سیاسی ڈھانچے میں اس کی سیاسی پوزیشن کو محفوظ رکھنا ہے- اس بناپر اگر سعودی عرب کے سیاسی اور انٹلی جنس شعبے میں کچھ تبدیلیاں انجام پائی بھی ہیں تو یہ بھی ان ہی نام نہاد تبدیلیوں کی مانند ہوں گی کہ جو محمد بن سلمان نے گذشتہ ایک برس کے دوران انجام دی ہیں اور جس کے نتائج کا، سیاسی گھٹن میں شدت ، گردنیں اڑانے ، صحافیوں اور سیاسی سرگرم کارکنوں کے قتل اور ان کی گرفتاریوں میں جائزہ لیا جا سکتا ہے-

پچھلے ایک برس اور خاص طور سے بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے، جو خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، سعودی عرب میں درجنوں، علما، سیاسی کارکنوں اور شہزادوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا ہے۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ انجام پانے والی تبدیلیاں در واقع چھوٹے سیاسی آفٹر شاکس ہیں جو ایک بڑے سیاسی زلزلے کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں چنانچہ ممکن ہے کہ یہ تبدیلیاں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی بادشاہت کے حکمنامے پر دستخط کے لئے انجام پائی ہوں- سیاسی مبصرین کے مطابق دوہزار اٹھارہ کا سال سعودیوں کے لئے، ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں کی مکمل ناکامیوں کا سال تھا - خاشقجی قتل کیس میں سعودیوں کی ذلت و رسوائی ، بجٹ میں زبردست خسارہ ، یمن کے دلدل میں پھنس جانا، اور شام میں شکست یہ سب علاقے میں ریاض کی شکستوں اور ناکامیوں کا ایک حصہ ہیں کہ جو علاقے اور دنیا میں سعودی حکمرانوں کی  مداخلت پسندی کانتیجہ ہیں-          

ٹیگس