Feb ۰۷, ۲۰۱۹ ۱۶:۱۵ Asia/Tehran
  • داعش مخالف نام نہاد اتحاد کا اجلاس اور واشنگٹن کے بے بنیاد دعووں کا اعادہ

امریکی صدر نے 19 دسمبر 2018 کو یہ اعلان کیا تھا کہ امریکی فوج شام سے نکل جائیں گی- انہوں نے اپنے بیان میں اس بات کا دعوی کیا تھا کہ اس کی وجہ شام میں داعش کی شکست ہے-

لیکن واشنگٹن میں داعش مخالف نام نہاد عالمی اتحاد کے ایک روزہ اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیونے عالمی اتحاد کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ صرف لڑائی کی نوعیت تبدیل ہورہی ہے وگرنہ امریکی اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

خبررساں اداروں کے مطابق مائک پومپیو جو امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ ہیں، نے داعش کو شکست دینے کے لیے تشکیل کردہ 79 ارکان پر مشتمل عالمی اتحاد کے واشنگٹن میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پرانی لڑائی کا نیا موڑ آیا ہے۔ انہوں نے واضح طورپرکہا کہ فوجوں میں کمی کا معاملہ حکمت عملی کی تبدیلی کا ہے وگرنہ اس کا جاری مشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے اس نام نہاد عالمی اتحاد کو یقین دہانی کرائی کہ اس لڑائی میں ہم اب بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ 

مائیک پامپئو کا یہ بیان ٹرمپ کے اس بیان کے برخلاف ہے کہ جس میں انہوں نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کی وجہ داعش کی شکست اعلان کیا تھا لیکن پامپئو نے اپنے تازہ ترین بیان میں جو انہوں نے داعش مخالف نام نہاد اتحاد کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں واشنگٹن میں دیا ہے، یہ دعوی کیا ہے کہ شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا ، داعش کےساتھ امریکہ کی جنگ کا اختتام شمار نہیں ہوتا- امریکی وزیر خارجہ نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ داعش گروہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بدستور عراق میں موجود ہے کہا کہ داعش کے نیٹ ورک پر یلغار کرنی چاہئے اور اس پر غلبہ حاصل کرلینا چاہئے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ٹرمپ نے بدھ کو واشنگٹن میں داعش مخالف نام نہاد اتحاد کے اجلاس میں اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ عنقریب ہی شام اور عراق میں داعش پر سو فیصد قابو پالینے کا اعلان کردیا جائے گا- درحقیقت داعش کی صورتحال کے بارے میں امریکی صدر اور وزیر خارجہ کے بیانات میں واضح تضاد پایا جاتا ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکی انتظامیہ ملک سے باہر کے ایک کلیدی مسئلے کے تعلق سے آپس میں متحد اور ہم آہنگ نہیں ہے- 

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ داعش کو ہر جگہ سے ختم کرنے کا پابند ہے اور دہشت کے خلاف عوام کا دفاع کرے گا- ٹرمپ کا یہ دعوی بھی مکمل طور پر خلاف واقع ہے- ٹرمپ نے بظاہر یہ بات فراموش کردی ہےکہ خود انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ، اوباما حکومت کو داعش دہشت گرد گروہ وجود میں آنے کا باعث قرار دیا تھا- درحقیقت امریکی خود ہی داعش کو جنم دینے والے اور اس کے اصلی حامی ہیں-

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر 2018 میں باقاعدہ یہ اعلان کردیا تھا کہ امریکہ کو داعش کے خلاف کامیابی مل چکی ہے لہذا دو ہزار امریکی فوجیوں کو وطن واپس بلایا جارہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان پر امریکی اتحادیوں میں حیرت کی لہر دوڑ گئی تھی جب کہ متعدد اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ اسی ضمن میں متعدد استعفے بھی وائٹ ہاؤس کو موصول ہوگئے تھے۔

شام سے امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کے ٹرمپ کے فیصلے کا مختلف پہلؤوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے- سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک ناقابل پیشگوئی شخصیت کے حامل ہیں اور اپنے دورصدارت میں وہ چند بار غیرمتوقع فیصلے کر چکے ہیں ان میں ایک شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور ان سے سمجھوتے کا اعلان تھا-البتہ یہ بھی مدنظررکھنا چاہئے کہ ٹرمپ ہمیشہ اپنے غیرمتوقع فیصلوں پر عمل نہیں کرتے اور شدید مخالفت ہونے یا یہ سمجھنے کے بعد کہ فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، اپنے موقف سے  پسپائی اختیار کر لیتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحدوں پر دیوار کھڑی کرنے کے فیصلے سے اس وقت پیچھے ہٹ گئے جب کانگریس نے اس کام کے لئے ان کی پانچ ارب ڈالر کے بجٹ کی درخواست مسترد کردی - لہذا شام کے سلسلے میں بھی انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ وہ پنٹاگون ، کانگریس ، صیہونی حکومت اور برطانیہ جیسے بعض امریکی اتحادیوں کی شدید مخالفت کے بعد اپنے فیصلے کو تبدیل کرتے ہیں یا ان مخالفتوں کے باوجود اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہیں-

 ٹرمپ کے فیصلے کی ایک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ امریکی اسٹراٹیجسٹوں کے موقف کے مطابق واشنگٹن مستقبل قریب میں شام میں بھاری قیمت چکائے بغیر طاقت کا توازن بدلنے میں کامیاب نہیں ہوگا اور اس ملک سے نکلنا واشنگٹن کے مفاد میں ہوگا- ایک اور دلیل ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی کردوں کے خلاف مشرقی فرات میں ترک فوج اور اس کے اتحادیوں کی آئندہ کارروائی کی دھمکی بھی ہوسکتی ہے کہ جس کے بعد ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ ترک اور امریکی فوجیوں کے درمیان کسی طرح کی جھڑپ سے بچنے اور انقرہ و واشنگٹن کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہونے سے روکنے کے لئے اپنے فوجیوں کو شام سے باہر نکال لینا چاہئے-

 بہرحال شام سے امریکا کے ممکنہ انخلا کی وجوہات سے قطع نظر اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ دمشق ، شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو بارہا غیرقانونی اورغاصبانہ قبضے کے مترادف اعلان اور شام سے ان فوجیوں کے باہر نکلنے پر تاکید کرتا رہا ہے-

ٹیگس