بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلے پر ٹرمپ کا ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی اداروں سے بے توجہی، ان پر تنقید ، اور ان اداروں سے نکلنے کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے-
امریکہ اب تک اقوام متحدہ سے وابستہ کئی اداروں منجملہ یونسکو اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے نکل چکا ہے اور اس نے بین الاقوامی عدالتی اداروں خاص طور پر عالمی فوجداری عدالت کو بھی دھمکی دی ہے- عالمی فوجداری عدالت یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ ایک ایسا عالمی عدالتی ادارہ ہے جو دنیا میں نسل کشی ، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مقدمات کی تحقیقات اور ان کی سماعت کرتا ہے-
ٹرمپ حکومت نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی پراسیکیوٹر فیٹو بنسودا کے خلاف اقدامات عمل میں لاتےہوئے ان کے امریکہ میں داخلے کے لئے ویزا جاری نہیں کیا ہے- فیٹو بنسودا نے نومبر 2017 میں افغانستان میں امریکہ کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی اجازت حاصل کرنے کے لئے امریکی ویزے کا مطالبہ کیا تھا-
اقوام متحدہ نے جرائم کی بین الاقوامی عدالت کی پراسیکیوٹر کا ویزا منسوخ کئے جانے کو عالمی ادارے کے تئیں امریکی وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے کہا ہے کہ عالمی ادارے کے عہدیداروں کو ویزا فراہم کرنا امریکہ سمیت تمام میزبان ملکوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کا لازمی دورہ کرنا ہے اور اس کے لیے ویزا جاری کیا جانا ضروری ہے۔ عالمی فوجداری عدالت کی جج فیٹو بنسودا کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی بنا پر انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے۔ آئی سی سی کی پراسیکیوٹر نے افغانستان میں امریکی فوج کے ممکنہ جنگی جرائم کی موثر تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی تھی جبکہ فلسطین نے بھی اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
اس کے مقابلے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے یہ دھمکی دی تھی کہ جو لوگ دنیا میں مسلح جنگوں میں امریکی فوجیوں کے خلاف تحقیقات میں عالمی فوجداری عدالت کے ساتھ تعاون کریں گے ان پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے گی اور ایسے افراد امریکی ویزے سے محروم کردیئے جائیں گے- افغانستان میں امریکی فوجیوں کے جرائم کی عالمی فوجداری عدالت میں تحقیقات کے تعلق سے ٹرمپ حکومت کی مخالفت سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت افغانستان میں اپنے فوجیوں کی غیر انسانی کارکردگی کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتی ہے- آخرکارعالمی فوجداری عدالت نے جمعہ بارہ اپریل کو اعلان کردیا کہ وہ افغانستان میں امریکہ کے جنگی جرائم کے بارے میں تحقیقات کو روک رہی ہے کیوں کہ امریکہ اور اس جنگ میں ملوث فریق اس سلسلے میں تعاون نہیں کر رہے ہیں- اس عالمی ادارے کے ججوں کے بقول افغانستان میں امریکی فوجیوں کے جنگی جرائم کے بارے میں تحقیقات اس وقت ہیگ کی عالمی عدالت کے لئے مناسب نہیں ہے- انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی پراسیکوٹر مدتوں سے امریکی فوجیوں کے ہاتھوں افغان شہریوں کے قتل عام ، شکنجے اور ایذائیں دینے کے الزام میں تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن اس عدالت کے ججز ظاہرا اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس سلسلے میں ثبوت و شواہد تک عدم دسترسی امریکی فوجیوں کے خلاف تحقیقات کے کام کو مشکل بنادے گی-
عالمی فوجداری عدالت کے ججز کےاس بیان کے باوجود حقیقت تو یہ ہے کہ اس عالمی فوجداری عدالت اور اس کے ججز کے خلاف واشنگٹن کا ہمہ جانبہ اور شدید دباؤ اس بات کا باعث بنا ہے کہ کریمنل کورٹ کی پراسیکیوٹر نے یہ فیصلہ کیا ہے-
وائٹ ہاؤس نے جمعہ بارہ اپریل کو ، افغانستان میں امریکہ کے جنگی جرائم کے الزامات کے بارے میں تحقیقات کا آغاز نہ کرنے کے عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے کو سراہا ہے اور اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے - ٹرمپ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس عالمی عدالت کو دھمکی بھی دے ڈالی اور کہا کہ یہ عدالت امریکی شہریوں پر مقدمہ چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی اور اگر عالمی عدالت نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا تو اس پر اقتصادی پابندیاں لگا دی جائیں گی کیوں کہ امریکہ اس کا رکن بھی نہیں ہے- امریکی صدر ٹرمپ نے انٹرنیشل کریمنل کورٹ کو خبرداربھی کیا کہ امریکہ ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہر طرح کے فیصلے کا وائٹ ہاؤس بھرپور اور فوری جواب دے گا-