تینتیس روزہ جنگ کے ثمرات و نتائج ، سید حسن نصراللہ کی نظر میں
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے سن دوہزار چھے کی تینتیس روزہ جنگ کی کامیابی کی سالگرہ کی مناسبت سے ایک تقریب سے خطاب کیا-
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اس خطاب میں تیرہ برسوں کے بعد تینتیس روزہ جنگ کے ثمرات و نتائج کی تشریح وضاحت کی - صیہونی دشمن کے مقابلے میں استقامت کی توانائیوں پر اعتماد ، تینتیس روزہ جنگ کا پہلا ثمرہ تھا- یہ اعتماد ، دوہزارچھے کی جنگ کے بعد ہونے والے دوسرے پارلیمان انتخابات میں بھی ثابت ہوگیا- اس جنگ کے بعد لبنان کا پہلا پارلیمانی الیکشن دوہزار نو میں ہوا اور دوسرا الیکشن دوہزاراٹھارہ میں منعقد ہوا - دوہزار اٹھارہ میں ہونے والے انتخابات میں استقامتی محاذ نے ایک سو اٹھائیس پارلیمانی نشستوں میں سے اڑسٹھ نشستیں حاصل کر کے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی- اس جنگ کا دوسرا نتیجہ ، جنگ سے پہلے کے مقابلے میں جنوبی لبنان کے امن و سیکورٹی میں اضافہ ہونا ہے- ایسی حالت میں کہ اس جنگ سے پہلے اسرائیل گاہے بگاہے جنوبی لبنان پر حملہ کرتا رہتا تھا لیکن اس جنگ کے بعد جنوبی لبنان پر کوئی حملہ نہیں ہوا- اس سلسلے میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ : ماضی اور جنگ کے زمانے کے نسبت جنوبی لبنان زیادہ امن و ثبات کا حامل ہے اور یہ امن و ثبات اس کی طاقت و کامیابی کا ثبوت ہے- استقامتی محاذ کے مقابلے میں امریکہ اور اسرائیل کی شکست فاش کا اثبات تیسری کامیابی اور تینتیس روزہ جنگ کا نتیجہ تھی - ایک جانب سید حسن نصراللہ تینتیس روزہ جنگ کو افغانستان و عراق پر امریکی حملے کا تسلسل اور ان جنگوں کی تکمیل سمجھتے ہیں اور دوسری جانب ان کا خیال ہے کہ یہ جنگ ، لبنان کے جغرافیائی حدود تک محدود نہیں ہونے والی تھی بلکہ اسے حزب اللہ کی سرنگونی اور لبنان ،عراق اور فلسطین سے استقامت کو پوری طرح ختم کرنا اور اسی طرح شام کی حکومت کا تختہ الٹنا نیز ایران کے محاصرے پر ختم ہونا تھی-
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا خیال ہے کہ لبنان میں استقامت کے خلاف اس جنگ کے رکنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ امریکی اور صیہونی اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ اس جنگ میں ناکام ہو چکے ہیں - سید حسن نصراللہ کی نظر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ شکست اسرائیلی فوج کے لئے اتنا سنگین تھی کہ اس غاصب حکومت کی فوج تیرہ سال گذرنے کے بعد بھی اپنے حوصلے بحال نہیں کرسکی ہے-
اس جنگ کا چوتھا نتیجہ ، بعض عرب ممالک کے حکام کی حقیقت و ماہیت کی شناخت تھی- بعض عرب ممالک کے حکام تینتیس روزہ جنگ کے بعد تک یہ تصور کررہے تھے کہ اسرائیلی فوج ، ناقابل شکست ہے- بعض عرب ممالک کو توقع تھی کہ اسرائیل ، چند دنوں میں لبنانی استقامت کو ختم کرسکتا ہے - اس جنگ سے ثابت ہوگیا کہ بعض عرب ممالک کے حکام سیاسی اختلافات کی بنا پر ایک عرب گروہ کے مقابلے میں صیہونی حکومت تک کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے-
تینتیس روزہ جنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ اس جنگ کو تیرہ سال گذرنے کے بعد بھی استقامت کا محور ، مغربی ایشیا کے علاقے کے ایک موثر بازی گر میں تبدیل ہوگیا ہے- ایسی حالت میں جب استقامت کے حذف ہونے سے عظیم مشرق وسطی تشکیل پا جائے گا، آج استقامت کے محور کے بغیر مشرق وسطی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے- علاقے میں استقامت کے محور کی پوزیشن و مضبوطی ایران کے ساتھ اعلان جنگ کرنے سے بچنے کا باعث ہوئی ہے - اس سلسلے میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے بھی کہا کہ : ایران کے خلاف اعلان جنگ سے امریکہ کا اجتناب بھی ایک ثمرہ و نتیجہ ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ کو ایران کی فوجی طاقت کا ادراک ہو گیا ہے-
حزب اللہ لبنان کے سربراہ کی نظر میں جو چیز علاقے میں تباہ کن جنگ واقع ہونے کی راہ میں حائل ہے وہ استقامتی محور کے محاذ کا اتحاد و یکجہتی ہے -