Oct ۱۳, ۲۰۱۹ ۱۷:۵۶ Asia/Tehran
  • مغربی ایشیا سے متعلق ٹرمپ کے متضاد مواقف

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک، قول و عمل میں تضاد بیانی ہے- ٹرمپ نے مغربی ایشیا کے بارے میں اپنے تازہ ترین بیان میں جو کچھ کہا ہے وہ ان کے حالیہ اقدامات سے واضح تضاد رکھتے ہیں-

ٹرمپ نے پیر کے روز اپنی تقریر میں ایک بار پھر دعوی کیا کہ مشرق وسطی میں امریکہ کی مداخلت، امریکی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی اور سب سے برا فیصلہ ہے- ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے عراق میں جنگ کے لئے چار ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں- میری نظر میں سب سے بڑی غلطی، مغربی ایشیا کی جنگ میں الجھنا ہے- ہم نے اس علاقے میں آٹھ ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں اور ہمارے ہزاروں فوجیوں کی جانیں گئی ہیں- 

ٹرمپ ظاہرا بھول گئے ہیں امریکہ کے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونئیر نے دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے ، افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کی تھی کہ جس کے نتیجےمیں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے اور وسیع پیمانے پر تباہی مچائی- ساتھ ہی یہ کہ امریکہ کی لشکرکشی، مغربی ایشیا میں داعش جیسے تکفیری دہشت گردوں کے وجود میں آنےکا باعث بنی کہ جس نے عراق و شام اور علاقے کے دیگر ملکوں میں بہت زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا-

بعد کے مرحلے میں امریکہ کے صدر بارک اوباما نے دوہزار چودہ میں داعش سے مقابلے کے لئے، داعش مخالف بین الاقوامی نام نہاد اتحاد تشکیل دیا کہ جس میں شام کے کردوں کا بہت اہم رول رہا ہے- اور پھر ٹرمپ کے دور صدارت میں واشنگٹن کی حمایت اور تعاون میں بہت زیادہ شدت آگئی اور شام کے کردوں نے امریکی حمایت یافتہ ڈموکریٹک فورس اور پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے قالب میں رقہ میں داعش کی شکست میں اہم کردار ادا کیا - امریکہ کی حمایت جاری رہنے کے بارے میں کردوں کے تصور کے باوجود، ٹرمپ نے اچانک ان کردوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کو ترکی کے مقابلے میں تنہا کردیا اور بقول کردوں کے، ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہے- ٹرمپ نے اس مسئلے کی توجیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے دس سال تک شام میں جنگ کی لیکن  اب ضرورت ہے کہ وہ کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں سے خود کو دور کرلے ساتھ ہی ٹرمپ کا خیال ہے کہ جو بھی قدم ہم اٹھائیں اس میں امریکہ کے لئے مالی منفعت اور فائدہ ہو اس لئے ترکی کے حملوں کے مقابلے میں شام کے کردوں کی حمایت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اس لئے کردوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا- ٹرمپ نے اس بارے میں کہا کہ ہم سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہم کردوں کے ساتھ شام میں جنگ کریں- لیکن میں نے کہا کہ ہم کسی فریق کی طرفداری نہیں کریں گے- ٹرمپ کے اس اقدام کی عالمی سطح پر خاص طورپر اندرون ملک بہت زیادہ مخالفت ہوئی ہے- امریکہ کے دوہزار بیس کے صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار  سنیٹر برنی سنڈرز نے کہا کہ شام پر ترکی کے حملے کے وقت، امریکی فوجیوں کو شام سے نکالنے کا ٹرمپ کا فیصلہ ایک شرمناک اقدام ہے- ہمیں اپنے ان اتحادیوں کو جو ہمارے لئے لڑے اور امریکی فوجیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے ان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے تھا- 

لیکن ٹرمپ کے مواقف میں تضاد اور دوغلا پن اس وقت کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ جب خلیج فارس کے اتحادیوں خاص طور پر سعودی عرب کےسلسلے میں امریکی اقدامات کا ہم جائزہ لیتے ہیں- سعودی عرب علاقے میں واشنگٹن کے لئے ایک اسٹریٹیجک اور اقتصادی شریک، اور امریکی ہتھیاروں کا سب سےبڑا خریدار ملک ہے- ٹرمپ اس ملک کو ایک آلہ کار کی نظر سےدیکھتا ہے اور اس نے بارہا سعودی حکومت کی توہین کرتے ہوئے سعودی عرب کو دودھ دینے والی ایک گآئے سے تشبیہ دیا کہ جس سے اس وقت تک دودھ دوہتے رہو جب تک وہ دودھ دیتی رہے-امریکی صدر نے سعودی عرب کی آئیل تنصیبات پر حالیہ حملے کے بعد اس ملک کی حمایت جاری رکھنے کے لئے سعودیوں سے مزید پیسے طلب کئے تھے- ساتھ ہی امریکہ، سعودی عرب کے لئے فوج اور فوجی سازوسامان روانہ کرنے میں تیزی لایا ہے اور تقریبا اپنے تین ہزار فوجی، سعودی عرب میں جدید فوجی سازوسامان کے ساتھ تعینات کردیئےہیں- ٹرمپ نے کہا ہے کہ سعودی حکام نے وعدہ دیا ہے کہ واشنگٹن ریاض کی جو بھی مدد کرے گآ اس کا وہ خرچ دے گا- بلاشبہ یہ اقدامات، سعودیوں کی جانب سے بھاری مالی ادائیگی کے بغیر انجام نہیں پائے ہیں- اس طرح سے ایسے میں کہ ٹرمپ، کئی ٹریلین ڈالر کے نقصانات کے باعث، مسلسل مغربی ایشیا سے امریکہ کے نکل جانے کی بات کہہ رہے ہیں لیکن عملی طور پر نہ صرف انہوں نے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ تازہ دم فوج اور فوجی سازوسامان علاقے کے لئے روانہ کردیا ہے- ظاہرا ٹرمپ کے لئے صرف مادی مفادات اور فائدے کا حصول ہی ہر قیمت پر اہمیت رکھتا ہے-   

  

     

ٹیگس