افغان مہاجرین کے بارے میں ایران کے سفیر اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان صلاح و مشورہ، داعش کے حملے میں زخمی افغان شہریوں کو ایران منتقل کر دیا گیا
پڑوسی ملکوں منجملہ ایران میں افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کے بارے میں ایران اور افغان حکام کے درمیان صلاح مشورہ ہوا ہے۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی اعلی قومی مصالحتی کونسل کے سابق سربراہ عبداللہ عبداللہ اور افغانستان میں ایران کے سفیر بہادر امینیان نے پڑوسی ملکوں منجملہ ایران میں افغان مہاجرین کے مسائل اور خاص طور سے ان کو منظم کئے جانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین اپنے ملک کے پڑوسی ملکوں منجملہ ایران و پاکستان کی سرحدوں کی طرف چل نکلے ہیں جس کی بنا پر ان دونوں ملکوں کے حکام میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
دوسری جانب شہر قندھار میں فاطمیہ جامع مسجد میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ بم دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو علاج و معالجے کے لئے ایران منتقل کر دیا گیا۔ ان زخمیوں کو افغانستان میں علاج کا صحیح بندوبست نہ ہونے اور افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کی ایران سے درخواست کے بعد منتقل کیا گیا ہے تاکہ ایران میں ان زخمیوں کا صحیح طرح سے علاج ہو سکے۔
قندھار میں ایران کے قونصل خانے نے اعلان کیا ہے کہ ایران کی جانب سے انسان دوستانہ امداد کا حامل ایک طیارہ قندھار پہنچ گیا ہے جہاں امدادی سامان اتارے جانے کے بعد کچھ افغان زخمیوں کو اسی طیارے سے ایران منتقل کر دیا گیا۔ ایران نے اس سے قبل بھی قندوز کی شیعہ مسجد میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد کے اہل خانہ کے لئے انسان دوستانہ امداد کے حامل دو طیارے روانہ کئے تھے۔ اس امداد میں دوائیں، کمبل، غذائی اشیا اور سردیوں میں پہننے والے گرم لباس شامل تھے۔
یاد رہے کہ جمعے کو قندھار کی شیعہ جامع مسجد میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں کم از کم تینتالیس نمازی شہید اور سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد ساٹھ سے زائد بتائی گئی ہے۔
قندوز کی شیعہ جامع مسجد پر ہونے والے حملے کی طرح اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ہے ۔ جمعہ آٹھ اکتوبر کو بھی ایک دہشت گرد حملہ آور نے قندوز کے علاقے خان آباد میں سید آباد کی جامع مسجد میں نمازیوں کی بیچ پہنچ کر خودکش دھماکہ کر دیا تھا جس میں سے کم ایک سو پچاس نمازی شہید اور دو سو سے زائد دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
یہ دہشت گردانہ حملے ایسی حالت میں ہو رہے ہیں کہ افغانستان میں اس وقت طالبان برسر اقتدار ہے اور انھوں نے دعوا کیا تھا کہ اب اس قسم کا کوئی حملہ نہیں ہونے دیا جائے گا اور افغانستان میں طالبان، عوام کو امن و تحفظ فراہم کرنے کی پوری توانائی رکھتے ہیں۔