پابندیوں کے خاتمے کے بغیر جوہری معاہدہ بے سود ہے: علی شمخانی
اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے کہا کہ ماضی کے تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پابندیوں کے جامع و موثر طریقے سے ہٹے بغیر جوہری معاہدے جے سی پی او اے سے پایدار اقتصادی مفادات کی توقع ایک سراب کے مانند ہے۔
علی شمخانی نے ٹویٹ میں کہا: اقتصاد اور ٹکنالوجی کے شعبے میں توانائی ایک دوسرے میں منسلک ہے اور کسی بھی عنوان سے پابندیوں کا ہٹنا ایسا ہو کہ سبھی شعبوں میں اس کا ایک جیسا اثر سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پابندیوں کے جامع و موثر طریقے سے ہٹے بنا جے سی پی او اے سے پایدار اقتصادی مفادات کی توقع سراب کے مانند ہے۔
واضح رہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے حال ہی میں یہ دعوا کیا ہے اس ملک نے پابندیوں سے کچھ چیزوں کو مستثنی قرار دے کر ایسے حالات مہیا کر دیئے ہیں کہ بیرونی کمپنیاں ایران کے ساتھ بوشہر ایٹمی بجلی گھر، اراک کے بھاری پانی کے ریئکٹر اور تہران ریسرچ ریئکٹر کے پروجکٹ میں تعاون کر سکتی ہیں۔
کچھ مغربی میڈیا نے امریکی حکومت کے اس اقدام کو پابندیاں ہٹنے سے تعبیر کیا اور دعوی کیا کہ واشنگٹن نے یہ قدم ویانا میں جوہری مذاکرات کے عمل کو آسان بنانے کے لئے نیک نیتی کے اظہار کے طور پر اٹھایا ہے، جبکہ مبصرین کی رائے اسکے برخلاف ہے۔
امریکی حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے وہ اصل میں پابندیوں کا ہٹنا نہیں بلکہ ایران کے ساتھ جوہری تعاون سے مربوط کچھ استثنائات کا پھر سے لاگو ہونا ہے، جس پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روک لگا دی تھی۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیدار اس سے پہلے صاف طور پر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ صرف اس صورت میں جوہری معاہدے میں واپس لوٹ سکتا ہے کہ جب اسکی طرف سے پابندیوں کا خاتمہ، زمینی سطح پر آزمائش میں کھرا اترے۔ گزشتہ ہفتوں مذاکرات کا عمل ایسا تھا جس سے پتہ چلتا ہے امریکہ سمیت مغربی فریق اس قدم کو اٹھانے کے لئے ابھی تیار نہیں ہیں بلکہ اس کی جگہہ نفسیاتی اور تشہیراتی آپریشن میں لگے ہوئے ہیں۔