Sep ۲۱, ۲۰۲۲ ۱۳:۰۹ Asia/Tehran
  • صدر ایران رئیسی کی الہٰی ادیان کے رہنماؤں سے ملاقات، خدا کو نقطۂ اتحاد بنانے پر زور

مذاہب و ادیان کے اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان مذاہب کے پیروکار اپنے عقائد سے دستبردار ہو جایں بلکہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ سبھی آپسی اشتراکات پر تکیہ اور اختلافات سے پرہیز کریں۔ یہ بات صدر ایران رئیسی نے اپنے دورۂ نیویارک کے موقع پر ادیانِ الٰہی کے نماہندوں اور رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہی۔

صدر ایران صدر سید ابراہیم رئیسی نے اپنے نیویارک دورے کے دوسرے دن الہی ادیان کے پیشواؤں اور رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  ہم سب الہی ادیان کے پیروکاروں کا مشترکہ  نقطہ، خدا کی عبادت ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم  خدا کی طرف توجہ کو الہامی مذاہب کے درمیان ایک مشترکہ اصول، مشترکہ فکر اور سوچ کو آئندہ کے لئے تعاون کی بنیاد قرار دیں۔

سید ابراہیم رئیسی نے دنیا کے مختلف مذاہب کے رہبروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے مذاہب الٰہی کے پیروکار اس بات پر متفق ہیں کہ وہ معاشرہ جس میں خدا پر اعتقاد، انسان کی ابتداء اور قیامت پر یقین ہو، وہ معاشرہ ترقی اور سعادت کی منزلوں کو طے کرتا ہے۔ صدر ایران کا کہنا تھا کہ انسانیت نے خون خرابے اور تباہی والی دو بڑی جنگوں کا سامنا کیا ہے اور خدا سے معاشرتی نظام کو الگ تھلگ رکھنے کا نتیجہ 70 سال سے فلسطینی بھگت رہے ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے سارے فیصلوں کے درمیان خدا پر یقین کو بھی مدنظر رکھیں۔

سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ ادیان الٰہی کے اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے پیروکار اپنے اعتقادات کو چھوڑ دیں بلکہ اتحاد اور وحدت کے معنیٰ یہ ہیں کہ  وہ ادیان میں پائے جانے والے اشتراکات خاص طور سے خدا کے عقیدے پر تکیہ کریں اور اختلافات سے پرہیز کریں۔

انہوں نے خداپرستی اورخداکے قوانین کی طرف توجہ کرنے کو استکبار، خودپرستی ، خود غرضی اور دوسروں پر تسلط حاصل کرنے کی خواہش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قراردیا اور کہا کہ دنیا میں ظلم و جبر کی بنیاد خود کو دوسروں سے برتر جاننا رہی ہے اور اس احساسِ برتری سے بچنے کا طریقہ خدا پرستی اور خدا کے قوانین کی پر توجہ ہے۔

انسان کی اجتماعی زندگی اور اس کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے حجۃ الاسلام رئیسی نے کہا کہ اجتماعی زندگی کے حق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی خواہشات اور تصورات کو دوسروں پر تھونپے، دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہش کفر کی نشانیوں میں سے ایک ہے جو انسان سے تفکر اور سوچ کی قوت چھین لیتی ہے۔

انہوں نے ادیان الٰہی کے درمیان اختلاف و تصادم کو مذاہب کے زوال اور معاشرے میں کفر و الحاد کے پھیلنے کی وجہ قرار دیا اور کہا کہ تصادم اور ایک دوسرے کی تباہی کی بجائے ادیان کے درمیان  نظریاتی ڈائلاگ اور بحث و مباحثہ ہونا چاہیے تاکہ اس طرح سے الٰہی ادیان ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ادیان کے درمیان یہ گفتگو تعمیری اور مؤثر ثابت ہوگی۔

تاریخ میں دینداری کی آڑ میں دین کو نقصان  پہنچانے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ داعش نے خدا کے نام اور اپنے پرچم پر خدا اور رسول اللہ (ص) کا نام لکھ کر ہولناک جرائم  انجام دئیے ہیں اور کوئی بھی دیندار اور حریت پسند شخص ان کی تائید نہیں کرسکتا۔

اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں مذہب کی طرف مائل رہیں تو ہمیں ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں حساس ہونا پڑے گا اور اس کام کے لئے اسلام نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا ایک ترقی پسند حل بتایا ہے جو معاشرے میں دین کے نفاذ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

عراق میں اربعین  مارچ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مارچ  ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی علامت ہے، اس نے انسایت کو دکھایا کہ اگر ظلم کے مقابلے میں خاموش رہا جائے تو معاشرے میں فساد اور ظلم پھیل جائے گا۔

صدر ایران نے اسی طرح ادیان الٰہی کے درمیان مکالمے اور بحث و مباحثہ کی غرض سے خصوصی اجلاس کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی آمادگی کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ میری تجویز ہے کہ ایک دوسرے سے تفکرات سے آشنا ہونے، آپسی ہم آہنگی، مشکلات کے خاتمے اور انسانی زندگی کی دشواریوں کے حل کے لئے یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

اس اجلاس میں  13 ادیان و مذاہب کے رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

 

ٹیگس