وال اسٹریٹ جرنل کا مضمون ایران پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کا حربہ ہے
گذشتہ تقریبا پچاس دن سے ایران کے اندرونی معاملات کے سلسلے میں سعودی حکام کا کوئی باضابطہ موقف منظر عام پر نہیں آیا ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران میں پیش آنے والے بلووں میں سعودی حکام کی دشمنانہ پالیسیوں کا نتیجہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایک مضمون شایع کیا ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ ایران آئندہ دنوں میں سعودی عرب میں چند اہداف کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ اخبار نے دعوی کیا ہے کہ ریاض نے اس حوالے سے واشنگٹن کو معلومات بھی فراہم کی ہیں۔
اس مضمون میں کسی بھی قسم کا ثبوت پیش کئے بغیر یہ بھی دعوی کیا گیا کہ امریکی باوردی دہشت گردوں اور مغربی ایشیا کی دوسری افواج نے اپنی تیاری کی سطح بڑھا دی ہے اور ہر طرح کے واقعے کے لئے تیار رہنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
دریں اثنا امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی پریس بریفنگ میں جب ایک صحافی نے اس سلسلے میں پوچھا کہ کیا سعودی عرب میں موجود امریکی شہریوں کو ایسے کسی حملے کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے ؟ تو نیڈ پرائس نے جواب دیا کہ انہیں ایسی کسی سفارتی ہدایت کا علم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے گذشتہ پچاس دن میں یعنی جب پہلی بار ایران میں بلووں کی آگ بھڑکی تو تہران کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کا موقف اپنانے سے گریز کا دکھاوا کیا لیکن ایران کی رائے عامہ اور اسی طرح علاقے اور بین الاقوامی امور کے مبصرین اور ماہرین کو ذرہ برابر شک نہیں کہ ایران میں پیش آنے والے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے افسوسناک مالی اور جانی نقصانات میں ریاض کا کردار مرکزی، غیرتعمیری بلکہ دشمنانہ رہا ہے۔
بظاہر سعودی حکام نے مہسا امینی کی موت کے بعد ایران کے بعض شہروں میں شورش اور بلووں کے سلسلے میں کوئی بھی واضح موقف نہیں اپنایا لیکن بعض ایسے ذرائع ابلاغ نے ایران میں آشوب کی آگ پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جن کے بارے میں واضح ہوچکا ہے کہ ان کی فنڈنگ سعودی عرب اور مغرب کر رہا ہے۔ حالانکہ ایران کو اس سلسلے میں جوابی کارروائی اور تنبیہی اقدامات کا بھی بھرپور حق حاصل ہے جس کا مطالبہ عوام بھی کر رہے ہیں اور انتظامی لحاظ سے بھی اس کا جواز مکمل طور پر موجود ہے لیکن وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کے ذریعے ایران کے اس قانونی دفاع کے حق کا رخ تبدیل کرنے اور اس کے خلاف پیشگی تشہیراتی کارروائی کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ ایران پر نفسیاتی دباؤ ڈال کر اسے مغرب کے زعم میں دیوار سے لگایا جا سکے۔تاہم ان عناصر کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ نظام اپنے عوام کی طاقت اور ترقی یافتہ ڈھانچے کی بنیاد پر گذشتہ تینتالیس برس کے دوران ایسے مشکل ترین اور پیچیدہ ترین بحرانوں سے گزر کر مستحکم انداز میں کھڑا ہے جن میں سے ایک بھی کسی طاقتور سسٹم کو تباہ کرنے کے لئے کافی تھا۔
گذشتہ برسوں کے تجربات سے ثابت ہوچکا ہے کہ جب بھی باہمی احترام، ہمسائگی اور بین الاقوامی اصولوں پر عمل درامد کے علاوہ ایران سے پیش آنے کا کوئی بھی دوسرا راستہ اختیار کیا گیا، دشمنی برتنے والے ممالک کے لئے اس کا نتیجہ محض نقصان کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں رہا ہے۔