امریکی صدر اور فرانسیسی جریدے کے توہین آمیز بیان و اقدام پر صدر ایران کا ردعمل
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے امریکی صدر کے توہین آمیز بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اُسے نوآبادیاتی ثقافت کی طرف ایک واپسی قرار دیا ہے۔
سحرنیوز/ایران: ایوان صدر کی ویب سائٹ کے مطابق سید ابراہیم رئیسی نے اتوار کے روز کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام عالم کی توہین کے سلسلے میں امریکی صدور کے بیانات کوئی نئی بات نہیں ہیں اور اس قسم کے بیانات پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
صدر ایران نے مزید کہا کہ امریکی صدر جوبایڈن کا بیان نوآبادیاتی ثقافت کی جانب انکی واپسی کی حکایت کرتا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے حوالے سے امریکہ کی دھوکہ دینے والی اداؤں کے پیچھے اس کا ایک وحشی اور فرعونی چہرہ چھپا ہوا ہے۔
سید ابراہیم رئیسی نے اسی طرح بدنام زمانہ فرانسیسی جریدے کے ذریعے ایرانی عوام کی دینی مرجعیت اور دیگر مقدسات کی توہین پر بھی ردعمل دکھایا اور کہا کہ آزادی کے نام پر توہین اور اہانت خود اس بات کی روشن دلیل ہے کہ انکی منطق کھوکلی ہے اور وہ ملکِ ایران میں بلوے اور بد امنی کو ہوا دے کر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
امریکی صدر کے توہین آمیز بیان پر ایران کی وزارت خارجہ نے بھی ردعمل دکھایا۔ وزارت کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ امریکی صدر ساری دنیا کو اپنی جینس پر لگا پیوند قرار دیتے ہیں اور اُدھر یورپی یونین کے خارجہ سیکریٹری بورل یورپ کو باغ اور باقی ساری دنیا کو جنگل بتاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں مزید لکھا کہ انسانی حقوق کے (مغربی) دعویداروں کے بیانات انکے نسل پرستانہ افکار کی حکایت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جوبایڈن نے اقوام عالم کی توہین کرتے ہوئے کہا تھا: ’’میں نے ایک سو چالیس ممالک کا دورہ کیا ہے، میں بڑی آسانی سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ساری دنیا ہماری جینس پر لگے دھبّے/پیوند کے برابر بھی نہیں ہے! ہم وہ سب کچھ کریں گے جو ہم چاہیں گے اور جس کی ہمیں ضرورت ہوگی!‘‘
جبکہ اُدھر بدنام زمانہ فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے حال ہی میں اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ایران میں بلوا کرنے والوں کی حمایت کے تناظر میں توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کا انعقاد کیا تھا اور پھر ایران کی ماہیت و حقیقت سے نابلد دشمن عناصر کی جانب سے ارسال شدہ توہین آمیز خاکوں کو ایران کے اعلیٰ حکام اور انکے دینی مقدست کی سبکی اور توہین کے مقصد سے اپنے صفحات پر جگہ دی تھی۔