رہبر انقلاب اسلامی نے استقامتی محاذ کی افادیت اور تقویت پر زور دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن کے سالانہ خطاب میں جنگ غزہ کے تناظر میں استقامتی محاذ کی زیادہ سے زیادہ تقویت کی ضرورت پر زور دیا۔
سحرنیوز/ایران: رہبر انقلاب اسلامی نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن تہران کے حسینیۂ امام خمینی میں عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں غزہ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ غزہ میں تیس ہزار سے زائد لوگوں کا قتل عام ہوتا ہے، مغربی دنیا کھڑی تماشا دیکھتی ہے اور مدد تک نہيں کرتی۔
رہبر انقلاب نے مزيد کہا کہ مغربی ایشیا میں ہر روز مزاحمتی محاذ کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا مقصد، صیہونی مجرموں کے مسلسل ظلم کا مقابلہ کرنا ہے اورمحاذ نے اپنی توانائيوں کا مظاہرہ کیا نیز دشمن کے تمام اندازے غلط ثابت ہو گئے۔
آپ نے فرمایا کہ صیہونی حکومت کو اب بحران سے نکلنے کے لئے بھی بحران کا سامنا ہے اور آج صیہونی حکومت میں فیصلے کی طاقت بھی نہيں ہے ۔رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے واقعات اور نام نہاد متمدن اور انسانی حقوق کی دعویدار دنیا کی نظروں کے سامنے تیس ہزار سے زیادہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے قتل عام کو مغربی دنیا پر حکمراں ظلم و تاریکی کا عکاس بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا اور یورپ والوں نے نہ صرف یہ کہ غاصب حکومت کے جرائم کی روک تھام نہیں کی بلکہ بالکل ابتدائی دنوں میں ہی مقبوضہ علاقوں کا دورہ کر کے غاصب صیہونی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا اور جرائم جاری رکھنے کے لیے طرح طرح کے ہتھیار اور امداد بھیجی۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مغربی ایشیا کے خطے میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل کی حقانیت کے اثبات کو غزہ کے حالیہ کچھ مہینوں کے واقعات کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ ان واقعات نے دکھا دیا کہ اس خطے میں مزاحمتی محاذ کی موجودگي، سب سے حیاتی مسائل میں سے ایک ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمتی محاذ کی توانائيوں کے سامنے آنے کو غزہ کی موجودہ جنگ کا ایک اور نتیجہ بتایا اور کہا کہ مغرب والوں کو بھی اور خطے کی حکومتوں کو بھی مزاحمت کی طاقت و توانائيوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا لیکن آج وہ غزہ کے مظلوم عوام کے صبر، حماس اور دیگر استقامتی گروہوں سمیت فلسطینی مزاحمت کے عزم و ارادے اور لبنان، یمن اور عراق میں مزاحمت کے طاقت و عزم کا مشاہدہ کرنے پر مجبور ہیں۔
آپ نے استقامتی محاذ کی طاقت کے عیاں ہونے کو امریکیوں کے اندازوں اور علاقائي ممالک پر مسلط ہونے کی ان کی منصوبہ بندیوں کے درہم برہم ہو جانے کا سبب بتایا اور کہا کہ مزاحمت کی طاقت نے ان کے اندازوں کو نقش بر آب کر دیا اور دکھا دیا کہ امریکی نہ صرف خطے پر مسلط نہیں ہو سکتے بلکہ وہ خطے میں رک بھی نہیں سکتے اور علاقے سے نکلنے پر مجبور ہیں۔