بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے جارح طاقتوں کو جواب دینا اپنا حق سمجھتے ہیں، ایران
صدر مملکت نے کہا کہ دنیا کے لوگ یورپی ممالک خاص طور پر جرمنی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ صیہونی حکومت کی حمایت کے بجائے غزہ میں صیہونیوں کی جانب سے جاری نسل کشی کے خاتمے کے لیے موثر کردار ادا کرے گا۔
سحرنیوز/ایران: پیر کے روز جرمنی کے چانسلر اولاف شولٹز کے ٹیلی فون کال کے جواب میں، صدر ایران مسعود پزشکیان نے، ایران اور یورپی ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا اسلامی جمہوریہ ایران، جرمنی سمیت تمام یورپی ملکوں کے ساتھ، دوستی، اعتماد کی بحالی اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات میں فروغ کا خواہاں ہے۔
صدر مملکت نے علاقائی اور عالمی امن، استحکام اور سلامتی کو قائم رکھنے اور فروغ دینے کو اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی پالیسیوں کا حصہ قرار دیا اور کہا ایسے حالات میں کہ جب صیہونی حکومت تمام بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کو پامال کرتے ہوئے، غزہ میں نسل کشی اور جرائم جاری رکھے ہے اور اس کے ساتھ ہی دوسرے ملکوں میں بھی دہشت گردی کرکے علاقائی امن و امان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ایران کے صدر نے مزید کہا کہ دنیا کے لوگ یورپی ممالک خاص طور پر جرمنی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ صیہونی حکومت کی حمایت کے بجائے غزہ میں صیہونیوں کی جانب سے جاری نسل کشی کے خاتمے کے لیے موثر کردار ادا کرے گا۔
صدر مسعود پزشکیان نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی پابندی کی ہے مزيد کہا ہم تمام ممالک کے ساتھ تعاون میں فروغ اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان کرتے ہيں کہ ہم دباؤ، پابندیوں، زور زبردستی اور دھمکی و جارحیت کے سامنے پیچھے ہٹنے والے نہيں ہیں اور ہم بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے جارح طاقتوں کو جواب دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولٹز نے اس ٹیلی فونی گفتگو میں ڈاکٹر مسعود پزشکیان کو ایرانی قوم کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی اور ان کے گرانقدر موقف کو سراہتے ہوئے ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنے ملک کی آمادگی اور دلچسپی پر زور دیا۔ جرمن چانسلر نے بھی مغربی ایشیا اور دنیا کے سلسلے میں جرمنی کی پالیسیوں میں علاقائی امن و امان کو ترجیحات میں قرار دیا اور غزہ میں تشدد و جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے آغاز کی ضرورت پر زور دیا۔