جمال خاشقجی کے قتل پر ردعمل، ریاض کانفرنس کا بائیکاٹ
ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں سعودی عرب کی آل سعود حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بیشتر نامہ نگاروں، صحافیوں اور سرمایہ کاروں نے ریاض کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق نیویارک ٹائمز، اکنامسٹ اور لاس انجلیس ٹائمز ایسے جرائد ہیں کہ جن کے صحافیوں اور نمائندوں نے اکتوبر میں ہی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والی آئندہ سرمایہ کاری کی کوشش کے زیرعنواں کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔
سی این بی سی چینل کے نامہ نگار ارون راس سورکین اور واشنگٹن پوسٹ کے چیف ایڈیٹر کرن اتیا نے جو خاشقجی کے آرٹیکل نشر کیا کرتے تھے، ریاض کانفرنس کا مکمل بائیکاٹ کئے جانے کی ضرورت پر زور بھی دیا ہے۔
ادھر برطانوی ارب پتی رچرڈ برانسن نے بھی جو سعودی عرب میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے تھے، سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے مرکز سے اپنے مذاکرات روک دیئے ہیں۔
امریکہ کی باراک اوباما حکومت کے وزیر توانائی ارنسٹ مونیز نے بھی پانچ سو ارب ڈالر کے نیؤم پروجیکٹ سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کسی بھی قسم کے تعاون کو جمال خاشقجی کے بارے میں مکمل حقائق سامنے لائے جانے سے مشروط کر دیا۔
فنانشل ٹائمز، فاکس بزنس اور سی این بی سی نے بھی کہا ہے کہ ریاض کانفرنس میں شرکت کے مسئلے پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔
دوسری جانب آزاد ڈاکٹروں کی تنظیم نے ایک رپورٹ میں پندرہ سعودی نامہ نگار گرفتار کر لئے جانے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے لاپتہ اور قتل کیس سامنے آنے کے بعد آزاد ڈاکٹروں کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب میں وبلاگر کے علاوہ پندرہ نامہ نگاروں کو دو ہزار سترہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔ البتہ یہ ابھی واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان نامہ نگاروں کو کہاں رکھا گیا ہے۔
اسی اثنا میں یورپی یونین نے جمعرات کو ایک بیان میں جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں مکمل اور شفاف تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
جمال خاشقجی ترکی کے شہر اساتنبول میں سعودی قونصل خانے گئے تھے اور اس کے بعد سے لاپتہ تھے جبکہ بعد میں ان کی لاش ایسی حالت میں ملی ہے کہ جسم پر ایذا رسانی کے نشانات پڑے ہوئے ہیں۔
خاشقجی کا نام سعودی حکومت کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھا اور سعودی حکومت ان کا تعاقب کر رہی تھی اور اسی بنا پر وہ بیرون ملک رہائش پر مجبور ہو گئے تھے۔
ادھر امریکہ کے ڈیموکریٹ سینیٹر کریس مورفی نے سعودی عرب کے لئے امریکی حمایت بند کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
امریکی ریاست کنٹیکی کے اس سینیٹر نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یمنی عام شہریوں پر بمباری پر امریکہ کو عارضی طور پر ہی سہی اپنی حمایت سعودی عرب کے لئے بند کر دینا چاہئے۔
انھوں نے امریکی وزیر جنگ کو اس سلسلے میں ایک مراسلہ بھی ارسال کیا ہے جس میں انھوں نے یمن پر سعودی عرب کے حملوں میں عام شہریوں کے مارے جانے پر تشویش کااظہار کی ہے۔
واضح رہے کہ یمن کو وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنانے میں سعودی عرب کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔