یمن کا اگلا ہدف کیا ہے؟ + مقالہ
یمن کی تحریک انصار اللہ کی جانب سے سعودی عرب کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد، اس تحریک کو بھی ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کی طرح کی اہم سمجھا جا سکتا ہے ۔
سعودی اتحاد کو ترجمان کی حیثیت سے احمد العسیری اور ترکی المالکی کو گزشتہ چار برسوں کے دوران خوب شہرت ملی تاہم اب یمنی حکومت کے ترجمان کے طور پر جنرل یحیی سریع، میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہے ہیں کیونکہ وہ یمن کی جانب سے میڈیا کو اہم اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح یمن کے وزیر اطلاعات ضیف اللہ شامی کو بھی یمن سے باہر بہت کم ہی افراد جانتے تھے تاہم وہ بھی اب مشہور ہو رہے ہیں ۔
گزشتہ روز ضیف اللہ شامی نے کہا کہ سعودی عرب کے ابہا ائیرپورٹ پر ایک بار پھر ڈرون طیارے سے حملہ کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے تاکید کی کہ فوجی ٹھکانوں پر اس وقت تک حملے جاری رہیں گے جب تک سعودی عرب یمن پر حملے روک نہیں دیتا ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس بار ضیف اللہ شامی نے متحدہ عرب امارات کو بھی کھلی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات بھی ہمارے نشانے کی فہرست میں ہے تو کیا اس بار اگلے کچھ دنوں میں متحدہ عرب امارات پر حملہ ہوگا ؟
یمن کے حالات کا بغور جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ انصار اللہ نے دفاعی پالیسی کے بجائے جارحانہ پالیسی اختیار کر لی ہے ۔
یمنی فوج نے سعودی عرب کے ابہا ہوائی اڈے کو کروز میزائل سے نشانہ بنایا اور اس میزائل نے سعودی عرب کے دفاعی سسٹم کو آسانی سے عبور بھی کر لیا ۔ اس سے پہلے سات ڈرون طیاروں نے ریاض کے مغرب میں تیل کے کارخانوں کو نشانہ بنایا لیکن سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ یمنی فوج نے امریکی ڈرون طیارے کو زمین سے مار کرنے والے میزائل سے نشانہ بنایا جس کے بعد امریکی فوج نے یہ اعتراف کیا جو در حقیقت جنگ یمن میں پہلی بار اپنی طرف سے شرکت کا اعتراف کرنا بھی ہے ۔
جس طرح سے جنوبی لبنان کے محاذ کو سرد اور یمن کے محاذ کو گرم کیا جا رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ مزاحمت کے محاذ نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف منصوبہ بند طریقہ سے کام شروع کر دیا ہے اور یہ علاقے میں جنگ کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہو سکتا ہے ۔
یمن کے وزیر اطلاعات ضیف اللہ شامی اور ترجمان یحیی سریع نے کہا ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں حیرت انگیز اقدامات کئے جائیں گے اور نئے ہتھیاروں کا استعمال، نئے اہداف کے لئے کیا جائے گا ۔
ان افراد نے نہ تو نئے ہتھیاروں کے بارے میں کچھ کہا ہے اور نہ ہی نئے اہداف کے بارے میں، اس لئے ہمارے سامنے انتظار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔
بشکریہ
رای الیوم