امریکا خود کو قربانی کا بکرا نہ بنائے + مقالہ
ایران کی فارس نیوز ایجنسی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ایک مقالے کے کچھ حصے کو مختصر پیش کیا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع اپنے ایک مقالے میں بل کرسٹل نے لکھا ہے کہ واشنگٹن کو ریاض کی جانب سے جنگ کرکے خود کو سعودی ایجنٹ نہیں بنانا چاہئے۔
نیویارک ٹائمز کے اس مشہور مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ امریکا کے سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے ایک بار مذاق میں کہا تھا کہ سعودی عرب، ایران سے جنگ کرنا چاہتا ہے... امریکی فوجیوں کے خون کے آخری قطرے تک! اب یہ خطرہ بڑھ رہا ہے کہ ہم اس خطرناک صورتحال میں پھنس جائیں ۔
مائک پومپئو نے ایران کو آرامکو حملوں کا ذمہ دار قرار دے کے رد عمل کی بات کہی تو ایران نے کہا کہ ہر جارحیت کا دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ ان حالات میں در اصل صدر ٹرمپ بڑی پیچیدہ صورتحال میں پھنس گئے ہیں۔ اگر امریکا، ایران کو جواب نہیں دیتا تو ایک کمزور واشنگٹن کی شبیہ بنے گی اور اگر حملہ کرتا ہے تو اس کے بعد کی صورتحال، پہلی صورتحال سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ حالات بڑی تیزی سے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یا بحرین کے کچھ علاقوں پر حملے کرے گا اور عراق نیز افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے شروع ہو جائیں گے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ وسیع جنگ، ایک المیہ ہوگا۔ ایران کی آبادی، عراق سے دو گنا ہے اور وہ عراق کی بہ نسبت زیادہ مضبوط فریق ثابت ہوگا۔ اس بنیاد پر ٹرمپ در اصل ایک پیچیدہ مسئلے میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ اگر کچھ نہ کریں گے تو امریکا کمزور سمجھا جائے گا اور اگر کچھ کریں گے تو پھر حالات بے قابو ہوکر المیہ بن جائیں گے اور یہ وہ مسئلہ ہے جسے خود ٹرمپ نے پیدا کیا ہے۔
نیویارک ٹائم نے لکھاہے کہ ہم مسائل میں گرفتار ہیں کیونکہ ٹرمپ، ایران کے ساتھ 2015 کے ایٹمی معاہدے سے نکل گئے ہیں۔ جنگ پسند افراد یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہم ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر اسے اتنی تکلیف میں مبتلا کر سکتے ہیں کہ وہ آخر میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا لیکن انہوں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ایران بھی ہم پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ جنگ پسندوں کی غلطی یہی ہے۔ وہ شطرنج کی بساط بچھاتے ہیں، مہرے سجاتے ہیں اور تصور میں ہی فریق مقابل کو شکست دینے کا منصوبہ تیار کر لیتے ہیں لیکن وہ جنگ کا بالکل شروعاتی اصول فراموش کر جاتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی چال چلتا ہے۔
کرسٹل لکھتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے کے نہ ہونے کی صورت میں سارے آپشن برے ہیں اس لئے اس سمجھوتے میں امریکا کی واپسی کا با عزت طریقہ تلاش کرنا چاہئے جس سے دونوں فریق خود کو فاتح کہہ سکیں ۔
ہمیں سعودی عرب کا پہرا دینے والا پالتو کتا نہیں بننا چاہئے۔ ہاں، ایران خطرہ ہے لیکن سعودی عرب بھی ہے۔ سعودی عرب نے لبنان کے زیر اعظم کو اغوا کیا تھا، قطر سے تنازع بڑھایا اور یمن میں دنیا کا سب سے بڑا المیہ پیدا کیا۔
تیل تنصیبات پر حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اسی طرح امریکا میں رہنے والے واشنگٹن پوسٹ کے صحافی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا بھی جرم ہے۔ سعودی عرب اپنی تیل تنصیبات پر حملے کے بارے میں عالمی تحقیقات کمیٹی کو دعوت کی جرات کرتا ہے تاہم اس ساتھ ہی میرے دوست، جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں عالمی تحقیقات کو رکواتا ہے۔ اگر سعودی عرب، ایران کے ساتھ جنگ کرنا چاہتا ہے تو اسے خود یہ کام کرنا ہوگا، یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے تو پھر اسے ہماری قتل گاہ بھی نہیں بننا چاہئے۔