امریکہ کی روس کو ایک اور دھمکی
امریکہ روس تعلقات میں جاری کشیدگی کے دوران ایک امریکی عہدیدار نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ جی 7 ممالک روس کے خلاف پوری طرح متحد ہیں۔
نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق، ایک امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسے بتایا ہے کہ گروپ 7 کے رکن ممالک یوکرین کی سرحدوں کے قریب روس کی فوجی نقل و حرکت میں اضافے کی وجہ سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔
مذکورہ امریکی عہدیدار نے کہا کہ جی 7 ممالک یوکرین پر روس کے ممکنہ قبضے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی پوری طرح متحد ہیں اور حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اس امریکی عہدیدار نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ روس کے ساتھ کشیدگی دور کرنے کے لیے سفارتی چینل بدستور کھلا ہے تاہم انہوں دھمکی دی کہ اگر روسیوں نے سفارتی چینل استعمال نہ کیا تو انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
جزیرہ نمائے کریمیا کے حوالے روس کے خلاف گروپ 7 کے رکن ملکوں اور یوکرین کی جانب سے الزام تراشی کا یہ سلسلہ ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب ماسکو بارہا ایسے الزامات کی تردید کر چکا ہے۔
اسی دوران روسی صدر کے ترجمان اپنے ملک کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیوں کو ناکام اور شکست خوردہ قرار دیا ہے۔ کریملن ہاوس کے ترجمان دی متری پیسکوف نے کا کہنا تھا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کو دوسروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا چسک پڑ گیا ہے،البتہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی اپنی سوچ بدلنے پر آمادہ نہیں، اس کے برخلاف ہماری پالیسی نئے پارٹنر بنانے پر استوار ہے۔ دی متری پیسکوف نے امریکی پابندیوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس، ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی ایک اور کھیپ جلد ترکی روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
قبل ازیں یونان کے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے روسی صدر کے ترجمان دی متری پیسکوف نے کہا تھا کہ روس ترکی تعاون یونان سمیت کسی دوسرے کے ملک کے خلاف خطرے کا باعث نہیں اور دوسرے یہ کہ ایس 400 میزائل سسٹم، ایک دفاعی نظام ہے، حملہ کرنے والا نہیں۔
روس اور ترکی کے درمیان دفاعی تعاون کا فروغ ایسے وقت میں جاری ہے جب امریکی پارلیمنٹ کے گیارہ ری پبلکن ارکان نے صدر جو بائیڈن کے نام ایک خط کے ذریعے ترکی کے لیے ایف 16 طیاروں کی فروخت کا سودا منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ان دنوں، شام میں ترکی کی مداخلت، روس کے ساتھ اس کے تعلقات اور بحیرہ روم میں انقرہ کے اقدامات اور بعض دوسرے قانونی معاملات کی وجہ سے صدر اردوغان سے سخت ناراض ہیں۔
نیٹو کا رکن ہونے وکے باوجود ترکی نے امریکی انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے سن دوہزار سترہ میں روس سے ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری کا سودا کیا تھا۔ نیٹو کے دیگر ممالک ترکی اور روس کے درمیان ہونے والے اس سمجھوتے سے شدید خوفزدہ ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں، امریکہ اور مغربی یورپ کے رکن ملکوں کے ہوائی جہازوں کو نشانہ بنانے کی روسی صلاحیت اور مہارت میں اضافہ ہوگا۔