سی آئی اے کے سابق تجزیہ نگار نے تحریک انصار اللہ کی تعریفوں کو پل باندھ دیئے، آل سعود پر شدید حملہ
امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ تحریک انصار اللہ کو جواب دینے کا پورا حق ہے اور یہ تحریک دہشت گرد نہیں ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایک امریکی جریدے نے یمن کی صورتحال پر رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ جنگ یمن کے بارے میں مغرب میں رائج روایت پر نظر ثانی کی جانی چاہئے۔
امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے میں مغربی ایشیا کے امور کے سابق تجزیہ نگار نے نیشنل انٹرسٹ میگزین میں اپنے مقالے میں لکھا کہ جنگ یمن کے بارے میں مغربی ممالک میں رائج زیادہ تر روایتیں، صحیح نہیں ہیں جو یمن میں اپنی آلہ کار حکومت کی تشکیل میں ریاض کی ناکامی کے بعد اس جنگ کے آغاز کے لئے سعودی عرب کی کوششوں کی جانب پلٹی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ جنگ یمن کی جڑ داخلی ہے اور اس کا ایران یا علاقے میں رقیب محاذوں سے کوئی تعلق نہيں ہے، یہ سعودی عرب کی فوجی مداخلت کا نتیجہ تھی جس نے ایک داخلی جنگ کو یمن میں غیر ملکی مداخلت کے لئے زمینہ فراہم کر دیا۔
سی آئی اے کے سابق اعلی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں دراندازی کی ہے اور اس ملک میں مداخلت کر رہا ہے، انہوں نے 60 کے عشرے میں یمن کی آمر اور ڈکٹیٹر حکومت کی ریاض کی جانب سے حمایت کی جانب اشارہ کیا اور لکھا کہ اس وقت بھی یمن میں سعودی عرب کی موجودگی کا اصل سبب، کسی بھی طرح کی مستقل و آزاد اور ریاض مخالف حکومت کی تشکیل کو روکنا تھا۔
پاول پیلار کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے یمن پر جو فضائی حملے شروع کئے، اس کی وجہ سے اس بحران میں کشیدگی بڑھی، ملک کی تباہی و بربادی نیز ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
امریکی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے پورے یمن کو ایک فوجی ٹارگٹ قرار دے دیا جو ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جنگ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی وجہ بنا ہے۔