صیہونی حکومت کو تحریک حماس کا سخت انتباہ، ہمارے رہنما پر حملہ آغاز جنگ کے مترادف ہے
فلسطین کی اسلامی استقامتی تحریک حماس کے سینئر رہنما نے صیہونی حکومت کو استقامتی رہنماؤں کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی سے اجتناب کی نصیحت کی ہے اور کسی بھی دشمنانہ کارروائی کو تحریک حماس کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے۔
جمعے کو صیہونی حکومت کے بعض ممبران پارلیمنٹ ، سابق حکام اور صحافیوں نے کھل کر تحریک حماس کے رہنما یحیی السنوار کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا۔ صیہونیوں نے السنوار کو مشرقی تل ابیب کے العاد علاقے میں انجام پانے والی دو استقامتی کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے جو جمعرات کو انجام پائی تھی اور اس میں تین صیہونی آبادکار ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔
فلسطین الیوم کی رپورٹ کے مطابق تحریک حماس کے رہنما زاہر جبارین نے منگل کو اعلان کیا کہ اگر صیہونی دشمن کی جانب سے کسی بھی استقامتی رہنما کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کا مطلب اعلان جنگ ہوگا اور استقامت اس کا منھ توڑ جواب دے گی اور دشمن کو کسی بھی طرح کی جارحیت کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔
جبارین نے زور دے کر کہا کہ صیہونی دشمن سمجھتا ہے کہ وہ ٹارگیٹ کلنگ کا راستہ اختیار کر کے استقامت کو ختم کرسکتا ہے جبکہ یہ اس کا خیالِ خام ہے۔ تحریک حماس کے رہنما نے مزید کہا کہ استقامت، دشمن کے جرائم کے مقابلے میں ہرگز خاموش نہیں بیٹھے گی چاہے وہ جارحیت قیدیوں کے خلاف ہو، بیت المقدس میں ہو، جنین میں ہو، غرب اردن میں ہو، غزہ پٹی میں ہو یا انیس سو اڑتالیس کے مقبوضہ علاقوں میں ہو۔
زاہر جبارین نے مزید کہا کہ ملت فلسطین کو صیہونی دشمن سے کوئی خوف نہیں ہے اور اس کی دھمکیوں سے استقامت رکنے والی نہیں ہے۔تحریک حماس کے رہنما نے زور دے کر کہا کہ صیہونی دشمن استقامت کے مختلف گروہوں کے درمیان تعاون اور یکجہتی سے سخت وحشت میں ہے۔
تحریک حماس نے غزہ میں تحریک کے سربراہ یحیی السنوار کے خلاف صیہونیوں کے کسی طرح کے اقدام کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطنیی استقامت کے رہنماؤں کے خلاف کسی بھی طرح کا اقدام، اسرائیل کے اسٹریٹیجک علاقوں اور شہروں کو اسقامتی میزائلوں سے آگ لگانے کے مترادف ہے۔
بیت المقدس اور مسجد الاقصی کے سلسلے میں صیہونی حکومت کے تسلط پسندانہ اقدامات ایسی حالت میں انجام پا رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے تعلیمی اور ثقافتی ادارے یونسکو نے دو ہزار سولہ میں ایک قرارداد پاس کر کے شہر بیت المقدس میں موجود مقدس مقامات بالخصوص مسجد الاقصی کے ساتھ یہودیوں کے کسی بھی طرح کے تاریخی، دینی یا ثقافتی رابطے کو مسترد کر دیا اور اس مسجد کو مسلمانوں کی مقدس جگہ قرار دیا ہے۔
شہر بیت المقدس جہاں مسجد الاقصی واقع ہے اور جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، فلسطین کا جزء لاینفک اور تین نہایت اہم مقدس اسلامی مقامات میں سے ایک ہے۔