Aug ۳۱, ۲۰۲۲ ۱۱:۳۸ Asia/Tehran
  • آل سعود نے ایک اور خاتون کو 45 سال کی سزا سنا دی

سعودی عرب کی انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا ہے کہ ملک میں نسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ جاری ہے اور سعودی عدالت نے اظہار رائے کی بنا پر ایک اور خاتون کو 45 سال کی سزا سنا دی۔

رائیٹرز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی ایک خصوصی عدالت نے سعودی خاتون نورا بنت سعید القحطانی کو سوشل میڈیا میں اظہار رائے کرنے کی بناء پر سعودی سماج کے اصولوں کی خلاف ورزی کے الزام میں 45 سال کی سزا سنائی۔

سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیم ڈان نے سوشل میڈیا اکاونٹ میں سعودی خاتون نورا بنت سعید القحطانی سے متعلق اطلاعات پوسٹ کیں۔

سعودی خاتون نورا بنت سعید القحطانی کو 45 سال کی سزا امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب اور 34 سالہ 2 بچوں کی ماں سلمی الشهاب کو ایک ٹوئیٹ کرنے پر 35 سال کی سزا کے چند ہفتے بعد ہوئی۔

سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں، تنقید کرنے والوں اور مخالفین کی شدت سے سرکوبی کا سلسلہ جاری ہے۔

انسانی حقوق کی تںظیموں اور اسی طرح ہیومن رائٹس واچ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سعودی عرب میں بہت بڑی تعداد میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو حکومت کی ایذارسانیوں اور غیر منصفانہ فیصلوں کا سامنا ہے۔

اس تنظیم نے مزید کہا کہ سال 2021 سعودی حکومت کی طرف سے گرفتاری مہم کا سال تھا جس میں صلح و امن کے لئے کوشاں کارکنوں اور ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو ملک میں سیاسی و انسانی حقوق کی نظر سے اصلاح چاہتے تھے۔

ہیومن رائٹس واچ نے سعودی حکام کی طرف سے ملک میں سنہ 2020 اور 2021 میں اصلاح کرنے کے دعووں کے برخلاف آزادی اظہارِ رائے کی خلاف ورزی اور مخالف عناصر کی بہیمانہ سرکوبی پر کڑی نکتہ چینی کی۔

سعودی عہدیداروں کی طرف سے، صحافیوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی اُن شخصیتوں کی گرفتاری کا عمل مسلسل جاری ہے جو آل سعود کی ملک کی داخلی و خارجہ پالیسی کے خلاف بات کرتے ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں علماء، ائمہ جماعت، دانشور، سیاستداں، سماجی کارکن، شاہی خاندان کے افراد اور سماج کے دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

ٹیگس