افغانستان میں پوست کی کاشت طالبان کےلئے ایک چیلنج یا منافع بخش کاروبار
افغانستان میں زندگی بسر کرنے کے لئے کاریگروں اور کاشتکاروں کی منشیات سے وابستگی پر اقوام متحدہ نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
شفقنا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی تعمیرنو سے متعلق امریکی تحقیقاتی ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اگست دو ہزار اکیس میں افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد مزدوروں اور کاشتکاروں کی منشیات سے ہونے والی آمدنی سے وابستگی کافی بڑھی ہے۔
اس امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ افغانستان میں منشیات کی پیداوار پر پابندی لگانے میں طالبان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی زندگی کا انحصار منشیات کی کاشت سے ہونے والی آمدنی پر ہے بنابریں منشیات کی پیداوار پر پابندی لوگوں میں بھوک اور بیماریاں پھیلنے کا باعث بن سکتی ہے۔
کچھ عرصے قبل ایک اور تحقیقاتی ادارے نے طالبان کے اقتدار میں افغانستان میں منشیات کے کاروبار کے فروغ پانے کی خبر کی تصدیق کی تھی۔
افغانستان میں طالبان انتظامیہ کی انسداد منشیات کے وزارت سے متعلق ادارے کے نائـب سربراہ عبدالحق ہمکار نے کہا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران سترہ سو کاروائیاں انجام دے کر پورے ملک سے تینتالیس ہزار کلو گرام منشیات ضبط کی گئی ہیں جبکہ اس سلسلے میں منشیات کے تقریبا دو ہزار اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
منشیات کی پیداوار پر پابندی لگانا ایک ایسا وعدہ ہے جس کو طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ طالبان لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے افغانستان میں منشیات کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر پابندی لگائی ہے تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری انتظامیہ امریکی پابندیوں اور عوام کی غربت و افلاس کی بنا پر اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کر سکی ہے۔
دریں اثناء بچوں کے حقوق کی ایک مدافع تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں افغانستان کو بچوں کے لئے دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا ہے۔
شفقنا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے حقوق کی اس مدافع تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سرالیئون کے بعد بچوں کے لئے بد ترین ملک شمار ہوتا ہے۔بچوں کے حقوق کی اس تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بچوں کے لئے دنیا کے تین ملکوں کو بدترین قرار دیا ہے جن میں پہلا ملک سیرالیئون، دوسرا افغانستان اور تیسرا ملک چاڈ شمار ہے۔اس تنظیم نے اسی طرح اس بات کا بھی اعلان کیا ہے کہ دنیا میں تقریبا ایک ارب بچوں کو ماحولیات میں آنے والی تبدیلیوں کی بنا پر شدید ترین خطرے کا سامنا ہے۔اس تنظیم کے مطابق گذشتہ چار برس میں مزدوری کرنےوالے بچوں کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔