کابل کی میزبانی میں افغانستان کے پڑوسی ملکوں کا اجلاس
کابل، پیر کے روز افغانستان کے بعض پڑوسی ملکوں کے نمائندوں کے اجلاس کی اس نوعیت کی پہلی بار میزبانی کر رہا ہے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: افغانستان کے دارالحکومت کابل کا یہ اجلاس ایران کی کوششوں اور روس، چین، پاکستان اور ایران کے نمائندوں کی شرکت سے افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی وزارت خارجہ کی میزبانی میں ہو رہا ہے۔
افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کابل اجلاس میں بعض دیگر ملکوں کی شرکت نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ کے اس قسم کے اجلاسوں میں تمام پڑوسی اور علاقے کے ممالک کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔
افغانستان میں طالبان جب سے دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں وہ اپنی حکومت کا بین الاقوامی جواز حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم مختلف ممالک اور بین الاقوامی اداروں اور خاص طور سے مغرب کی جانب سے افغانستان کی طالبان کی عبوری انتظامیہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
عالمی برادری کا اہم ترین مطالبہ، افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل، افغان شہریوں کے حقوق کا احترام منجملہ عورتوں کو ملازمت اور لڑکیوں کو تعلیم کا حق دیئے جانے کے بارے میں رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بعض پڑوسی ملکوں کے نمائندوں کی شرکت سے منعقدہ یہ اجلاس ایک طرح سے طالبان انتظامیہ کا اعتبار بڑھانے سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔
افغانستان کو مختلف مسائل و مشکلات سے باہر نکالنے کے لئے اس ملک کے موضوع پر بین الاقوامی رابطہ گروپ کی تشکیل اور پڑوسی اور علاقے کے ملکوں کے لئے افغانستان کو مستحکم بنانا ایران کی کوششوں میں شامل رہا ہے اور یہ مسئلہ اس سے قبل روس کے کازان اجلاس میں بھی پیش ہوا تھا جس کا ذکر اس اجلاس کے اختتامی بیان میں بھی کیا گيا۔
روس میں کازان کا اجلاس بھی گذشتہ سال ستمبر میں علاقے کے تیرہ ملکوں منجملہ ایران، روس، چین، ہندوستان،پاکستان، افغانستان، ازبکستان، تاجیکستان، قزاقستان، قرقیزستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے نمائندوں کی شرکت سے منعقد ہوا تھا۔
افغانستان کے امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے خصوصی نمائندے حسن کاظمی قمی نے کازان اجلاس کے بعد کہا تھا کہ پڑوسی ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ علاقائی سطح پر کوششوں سے ایک اجتماعی اقدام کے ذریعے افغانستان کی عبوری طالبان انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس ملک میں حالات تبدیل کئے جائیں۔
حسن کاظمی قمی نے کازان اجلاس میں علاقے میں امریکہ کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے گذشتہ برسوں کے دوران افغانستان میں امریکی پالیسیوں کو نادرست قرار دیا اور افغانستان کے مسائل کے حل میں مدد کے لئے اغیار پر کسی طرح کا کوئی بھروسہ کئے بغیر افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے درمیان تعاون کی ضرورت پر تاکید کی۔
موصولہ رپورٹوں کی بنیاد پر طے پایا ہے کہ کابل اجلاس میں مختلف مسائل منجملہ افغانستان کے سیاسی و سیکیورٹی مسائل اور دہشت گردی کے خلاف مہم، اقتصادی و ثقافتی تعاون اور ماحولیات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا ۔ اسی طرح افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کا نہ پانا بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں یہ مسئلہ افغانستان کے پڑوسی ملکوں منجملہ اسلامی جمہوریہ ایران اور روس پر اثر انداز واقع ہوا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ کابل کے اس اجلاس میں اس مسئلے پر بھی گفتگو ہو گی۔
افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے نمائندوں کی شرکت سے کابل میں بین الاقومی رابطہ گروپ کا یہ اجلاس ایسی حالت میں تشکیل پا رہا ہے کہ حال ہی میں افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی وزارت خارجہ نے پڑوسی اور علاقے کے مختلف ملکوں کے نمائندوں اور سفارتکاروں کی شرکت سے ایک نشست میں افغانستان کے سلسلے میں راہ حل تلاش کئے جانے کی ضرورت پر زوردیا تھا ۔ انھوں نے اس نشست میں موجود مختلف ملکوں کے نمائندوں سے اپیل کی تھی کہ وہ افغانستان کی طالبان انتظامیہ کا یہ پیغام اپنے اپنے ملکوں تک پہنچا دیں تاکہ افغانستان اور پورا علاقہ مشترکہ طور پر پیدا ہونے والے نئے مواقع سے کچھ اس طرح سے فائدہ اٹھائے کہ اس کا فائدہ علاقے کے تمام ملکوں کی حکومتوں کو بھی پہنچے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے نمائندوں کی شرکت سے علاقائی اجلاسوں کے انعقاد سے افغانستان سمیت پورے علاقے کے مسائل و مشکلات کے حل میں مدد ملے گی۔اس لئے کہ یہ پڑوسی اور علاقے کے ممالک ہی ہیں کہ جو افغانستان میں پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات سے متاثر ہوتے ہیں بالفاظ دیگر افغانستان میں امن و استحکام اور اقتصادی رفاہ و سہولیات سے افغانستان کے پڑوسی اور علاقے کے تمام ملکوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
بنابریں یہ بین الاقوامی رابطہ گروپ افغانستان کو مختلف مسائل و مشکلات سے باہر نکالنے کے لئے ایک مناسب طریقہ کار کی مانند ہے۔