Feb ۲۷, ۲۰۲۴ ۱۴:۳۲ Asia/Tehran
  • بحیرۂ احمر میں یمنی فوج کی موجودگی نے امریکہ اور برطانیہ کو کیا پیغام دیا ہے

یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سیکریٹری نے غزہ کے مظلوم اور مقتدر عوام کی حمایت میں بحیرۂ احمر اور باب المندب میں یمنی فوج کی موجودگی اور دشمن کے خلاف نبرد آزمائی کو ایک اسٹریٹیجک اقدام قرار دیا ہے۔

سحر نیوز/عالم اسلام: یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سیکریٹری یاسرالحوری نے بحیرۂ احمر میں یمنی فوج کی موجودگی اور اس میں دشمن کے خلاف کارروائیوں کی اہمیت کے بارے میں کہا کہ امریکی، برطانوی اور صیہونی حکومت کی افواج کے ساتھ بحیرۂ احمر میں جنگ، فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں انجام پا رہی ہے۔

یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ یہ جنگ سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے اور بحیرۂ احمر کے ساحل کے تمام عرب اور اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ فلسطینی عوام کے دفاع میں صیہونی حکومت کے خلاف اپنا کردار ادا کریں-

یاسر الحوری نے کہا کہ بحیرۂ احمر میں یمنی فوج کی جنگ ، علاقے میں یمن کے اسٹریٹیجک اور سیاسی کردار کی غماز ہے اور یہ معنی خیز موجودگی ، بحیرۂ احمر میں امریکہ اور برطانیہ کی طاقت اور بالادستی کو کمزور کردے گی-

یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے مشیر محمد مفتاح نے بھی کہا ہےکہ بحیرۂ احمر میں یمنی فوج کی موجودگی نے ثابت کردیا ہے کہ یمن جیسے ممالک اوران کےعوام بھی امریکہ سے مقابلے کی توانائی رکھتے ہيں۔

یمن کی تحریک انصاراللہ کے سیاسی دفتر کے رکن عبدالوھاب المھباشی نےبھی کہا ہے کہ بحیرۂ احمر میں یمنی فوج کی کارروائیوں کے نتائج بہت وسیع ہیں اور اسی وجہ سے امریکہ نے یمن کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یمنی فوج نے حالیہ مہینوں کے دوران، غزہ میں فلسطینی قوم کی مزاحمت کی حمایت میں، متعدد اسرائیلی بحری جہازوں یا مقبوضہ علاقوں کو جانے والے بحری جہازوں کو بحیرۂ احمر یا باب المندب میں نشانہ بنایا ہے

یمنی فوج نے عہد کیا ہے کہ جب تک کہ اسرائيلی حکومت غزہ کے خلاف اپنے حملے بند نہیں کرےگی، اس غاصب حکومت کے بحری جہازوں اور مقبوضہ علاقوں کو جانے والے بحری جہازوں پر حملے جاری رکھیں گے-

یمنی فوج نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے بحری جہازوں یا اس کے لئے سامان لے جانے والے بحری جہازوں کے علاوہ ، تمام ملکوں کے بحری جہاز کسی روک ٹوک کے بغیر خلیج عدن اور بحیرۂ احمر میں آزادانہ آمد و رفت رکھ سکتے ہیں۔

ٹیگس