جنین آپریشن صیہونی حکام اور جنرلوں کے لئے ڈراؤنا خواب
عبدالباری عطوان نے غرب اردن کے شہر جنین میں صیہونی حکومت کے خلاف استقامت کی حالیہ کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اسے دوسرے لینن گراڈ سے تعبیر کیا ہے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: عالم عرب کے معروف مبصر اور تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے اپنی ایک رپورٹ میں غرب اردن کو صیہونی حکام اور جنرلوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب قرار دیا جس نے ان کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔
عطوان نے اس مہلک اور کاری ضرب کی جانب اشارہ کیا ہے جو غرب اردن کے شہر شمالی جنین کے مرج بن عامر علاقے میں جہاد اسلامی فلسطین کے فوجی بازو سرایاالقدس سے وابستہ جنین بریگيڈ کے مجاہدین نے لگائی ہے اور مجاہدین کے اس آپریشن کو حقیقی معنی میں صیہونیوں کے تمام منصوبوں اور سازشوں کی جلد ہی ناکامی کا ثبوت قرار دیا ہے ۔
عبدالباری عطوان نے لکھا ہے کہ استقامت کے جوانوں نے پوری تیاری سے غاصبوں کے خلاف آٹھ گھنٹے کی کارروائی انجام دی اور بے مثال شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اس آپریشن کی اہمیت کی وجہ اس کی زبردست منصوبہ بندی اور اس پرلاجواب عمل درآمد میں ہے۔
عبدالباری عطوان کے مطابق صیہونیوں کے خلاف ٹنلوں اور انڈرگراؤنڈ انجام پانے والے اس آپریشن میں استعمال ہونے والے تمام بم استقامت کے جوانوں کے بنائے ہوئے ہيں ، عطوان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایسی اطلاعات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کارروائیاں ، غرب اردن میں مجاہدین کے ساتھ جنگ کا آغاز ہیں ۔
عطوان نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اس آپریشن کا عمل اور اس پر زبردست عمل درآمد اور اس میں گائيڈڈ بموں کا استعمال ایک گوریلا وار کا عکاس ہے کہ جس کا دائرہ پھیل بھی سکتا ہے اور اس کا نتیجہ فلسطینی نوجوانوں کے تجربات اور پوری طرح مسلح دشمن پر ان کی برتری و کامیابی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نئی حکمت عملی کے پيچھے وہ خلاق و موجد نوجوان ہيں جنھیں شہادت سے کوئی خوف نہيں ہے اور وہ کبھی بھی غزہ کو تنہا نہيں چھوڑیں گے۔
انھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ صیہونی حکومت نے چودہ بار سے زیادہ اپنے ٹینکوں اور بولڈوزروں سے غرب اردن کے جنین کیمپ پر حملہ کیا اور اس کے فوجیوں نے دسیوں اور سیکڑوں مجاہدین کی ٹارگٹ کلنگ کی یا انھیں گرفتار کیا اور ان کے کیمپوں کی سڑکوں کو ہائی وے بنا دیا ہے تاکہ ان کے ٹینک اور بکتربند گاڑیاں آسانی سے گذر سکیں لیکن اس کیمپ میں انھیں جس کا رقبہ ایک کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے بھاری شکست سے دوچار ہونا پڑا اور وہ استقامت پر غالب نہيں آسکے۔
انھوں نے لکھا کہ اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بعض میڈيا ذرائع اور سوشل میڈیا چینل کم رقبے کے باوجود اسے دوسرے لنین گراڈ سے تعبیر کر رہے ہيں ایسا لینن گراڈ جس کےاطراف جنگل اور پہاڑ نہيں ہے اور ان کے عرب پڑوسیوں کی جانب سے ان کی حمایت و مدد بھی نہيں ہو رہی ہے۔
عطوان نے تاکید کے ساتھ کہا کہ غرب اردن میں استقامت کی کارروائیاں نسل پرست صیہونی حکومت کے وزیرخزانہ بزاللہ اسموتریچ کا جواب ہے کہ جس نے چند روز قبل غرب اردن کو ضم کرنے کے لئے عملی اقدامات شروع کرنے کی بات کی تھی اور اپنی اصلی ذمہ داری کسی بھی حالت میں فلسطین نام کا ملک تشکیل نہ ہونے دینا قرار دیا تھا۔