Aug ۲۴, ۲۰۲۵ ۱۸:۰۲ Asia/Tehran
  • غزہ ، بھوک ، پیاس اور شعلوں کی روشنی میں گزرتی راتيں ، انسانیت ہمیں معاف کرے گی؟

غزہ کی راتیں اب ستاروں کی روشنی سے نہیں بلکہ آگ کے شعلوں سے روشن ہیں۔

سحرنیوز/عالم اسلام:جارحیت اور دھماکوں نے گلیوں کا سکون چھین لیا ہے اور پورے کے پورے محلے زمین بوس ہو چکے ہیں۔

اسپتال ملبے کے ڈھیر میں بدل گئے ہیں جہاں زخمی اپنی آخری سانسوں تک علاج کا انتظار کرتے ہیں۔غزہ میں والدین اپنے شییر خوار بچوں کی لاشیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

رپورٹر آخری خبریں نشر کرتے کرتے خود خاموش ہو گئے۔ خوراک کی گاڑیاں روک دی گئیں اور لوگ بھوک سے نڈھال ہو کر زندگی کی بقا کے لیے روٹی کے ٹکڑوں کے محتاج ہو گئے ہیں۔

غاصب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملے عام شہریوں پر نہیں ہوتے لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔

اسکول ملبے کا ڈھیر ہیں مساجد تباہ، عمارتیں زمین بوس اور پناہ گزین کیمپ مٹی میں دفن ہو چکے ہیں۔ عام شہری سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ اب تک 63 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے تھے، جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 80 ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

منظر عام پر آنے والی صیہونی خفیہ فوجی دستاویزات کے مطابق 83 فیصد شہداء عام شہری ہیں۔

یہ جنگ نہیں، یہ گھروں کے اندر نسلوں کے مٹنے کی کہانی ہے۔یہ المیہ اچانک رونما نہیں ہوا۔ برسوں پہلے اس کی پیش گوئی کی جا چکی تھی۔ یہ انتباہ نہ فلسطینیوں نے دیا، نہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے، بلکہ یہ وارننگ وہ لوگ دے رہے تھے جو خود برسوں تک اسرائیل کی سیکیورٹی مشینری کے سربراہ رہے ہیں۔

ماضی میں غاصب اسرائیلی کی جنگی مشینری چلانے والے عناصر نے دنیا کو بتایا کہ قبضہ کبھی سلامتی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کنٹرول کے لیے کیا جاتا ہے۔ عشروں کی فوجی کارروائیوں، ٹارگٹ کلنگ، چیک پوسٹ اور ناکہ بندیوں نے کسی مستقل تحفظ کو جنم نہیں دیا۔ ان پالیسیوں نے فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا، خاندانوں کو اجاڑ دیا اور ان کے دکھ میں اضافہ کیا۔

دوسری طرف خود اسرائیلی معاشرہ بھی خوف، مزاحمت اور انتقام کے ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں قید ہو کر رہ گیا۔

آج مغرب کی غیر مشروط حمایت پر اسرائیلی حکومت نے امن کے دعوے بھی ترک کر دیے ہیں۔ بھوک کو ہتھیار بنا لیا ہےاور فلسطین کی بقا کو سودے بازی کا حصہ بنا دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کا ہر چھٹا بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ شمالی غزہ مکمل قحط کی کیفیت میں داخل ہو چکا ہے۔ کم از کم 281 افراد بھوک سے شہید ہو چکے ہیں جن میں درجنوں معصوم بچے شامل ہیں۔

لوگ امداد کے ٹرکوں کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھار یہ امید بھی موت میں بدل جاتی ہے۔ ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں 33 فلسطینی اس وقت شہید ہوئے جب وہ امدادی گاڑیوں سے کھانا لینے پہنچے تھے۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس صورتحال کو انسانیت کی ناکامی قرار دیا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے زیادہ تلخ ہے۔ یہ صرف انسانی ہمدردی کی ناکامی نہیں بلکہ قیادت، سفارت کاری اور انصاف کے عالمی نظام کی مکمل شکست ہے۔

آج غزہ صرف جنگ کا میدان نہیں رہا بلکہ یہ ایک مقتل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مغربی حکومتوں کی خاموشی، جانبدار میڈیا، بیانیے اور سفارتی بے حسی نے اس المیے کو مزید ہولناک بنا دیا ہے۔اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہ بھی اس ظلم پر خاموش نہیں رہے اور ہم بھی خاموش نہیں رہ سکتے۔

ان کے الفاظ یاد دلاتے ہیں کہ یہ قتلِ عام صرف طاقت کی ہوس میں کیا گیا ہے ۔ قبضے اور طاقت پر مبنی پالیسیاں آخرکار اپنی ہی سفاکی کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔

کوئی ریاست، چاہے کتنی ہی طاقتور ہو، بچوں کی قبروں پر امن قائم نہیں کر سکتی۔

غزہ کو تاریخ کا ایک اور المناک باب نہیں بننے دینا چاہیے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ان دگرگوں حالات کو سنجیدگی سے لیا جائے نسل کشی کے مرتکب ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے اور خاموشی کے بت کو توڑ دیاجائے۔ بصورتِ دیگر، تاریخ ہمیں بھی اس جرم میں شریک ٹھہرائے گی۔

 

 

ٹیگس