Feb ۱۶, ۲۰۲۵ ۱۴:۲۸ Asia/Tehran
  • نوجوان منقبت خواں علی کاظم خواجہ آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک، نماز جنازہ میں دسیوں ہزار افراد کی شرکت

گلگت بلتستان کے 3 نوجوان نعت خواں علی کاظم خواجہ، ان کے بڑے بھائی ندیم خواجہ اور جان علی شاہ کاظمی کو ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کردیا گیا، نماز جنازہ میں دسیوں ہزار افراد نے شرکت کی۔

سحر نیوز/ پاکستان: گلگت بلتستان کے مرکزی شہراسکردو سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ علی کاظم خواجہ، ان کے 18 سالہ بھائی ندیم خواجہ اور شگر سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ جان علی شاہ کاظمی جمعے کو خیرپور میں ایک مذہبی اجتماع میں شرکت کے بعد مذہبی رہنما حسن ترابی کے بیٹے سماجی کارکن زین ترابی اور روہڑی سے تعلق رکھنے والے عبدالغنی منگریو کے ساتھ  خیرپور میں جشن ولادت امام مہدی علیہ السلام میں شرکت کے بعد کراچی واپس آرہے تھے کہ انڈس ہائی وے پر سان ٹاؤن کے قریب ایک ایس یو وی نے ان کی گاڑی کو مخالف سمت سے ٹکر مار دی تھی، حادثے کے نتیجے میں پانچوں افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے  جس کے بعد علی کاظم خواجہ، ندیم خواجہ اور جان علی شاہ کاظمی کی میتیں پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے تدفین کے لیے اسکردو بھجوائی گئیں ۔ اسکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر میتوں کو وصول کرنے کے لیے ہزاروں افراد موجود تھے، جہاں سے تینوں میتوں کو مرکزی امامیہ جامع مسجد لے جایا گیا جہاں جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔

مرحومین کی نماز جنازہ انجمن امامیہ بلتستان کے صدر سید باقر الحسینی نے پڑھائی جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی، بعدازاں لاشوں کو تدفین کے لیے ان کے آبائی گاؤوں اسکردو اور شگر لے جایا گیا۔

علی کاظم خواجہ اسکردو کے رہائشی تھے جنہوں نے کم عمری میں ہی اسکردو میں مذہبی اجتماعات میں نعتیں پڑھنا شروع کر دی تھیں۔

خاندانی ذرائع کے مطابق وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے اور انہوں نے چند سال قبل منقبتیں اور نعتیں پڑھنے کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی، علی کاظم خواجہ اکثر مذہبی اجتماعات کے لیے اندرون و بیرون ملک کے دورے کرتے تھے اور نعتیں اور منقبتیں پڑھتے تھے۔

تشیع جنازہ اور نماز جنازہ میں دسیوں ہزار افراد کا اجتماع محض کسی ذاتی عقیدت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہری فکری اور سماجی حقیقت کا مظہر ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی فرد اپنی زندگی کو اہل بیت کی محبت میں بسر کرتا ہے، تو اس کی موت بھی ایک ایسا انقلاب برپا کر سکتی ہے جو لاکھوں دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ یہ اجتماع ایک لمحاتی ہلچل نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوت کا عملی مظاہرہ تھا، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مذہب محض ایک انفرادی عقیدہ نہیں بلکہ اجتماعی وحدت اور تحریک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

ٹیگس