ایران سے کینہ اور مخاصمت کے اسباب؟ اردنی مقالہ نگار کے حیرت انگیز انکشافات !
اردن کے مشہور مقالہ نگار اور دانشور صابر الدقاسمہ نے مندرجہ بالا عنوان کے تحت ایک مقالہ شائع کیا۔ وہ لکھتے ہیں :
ہر روز صبح، ہر کھانے کے بعد اور سونے سے پہلے ایران کی توہین اور بے احترامی کرتے ہیں اور اس کو شیطان قرار دیتے ہیں اور "تشیع" نامی ایک خیالی جن سے وحشت زدہ ہیں، جہالت میں مست آپ کو نہیں پتا کہ ایران میں دو کروڑ سے زیادہ اہل سنت زندگی بسر کرتے ہیں، کسی نے طاقت کے زور پر ان کو شیعہ نہیں کیا اور ایران کی تاریخ میں کسی بھی سنی نے مذہب تشیع اختیار نہیں کیا۔
ان سب کے باوجود، ایران کے حوالے سے عربوں کے اس اندھے کینے کی وجہ کیا ہے؟
کیا اس کی وجہ، اس ملک کے مقابلے میں کمزوری ہے جو 35 برسوں کی پابندیوں اور سخت ترین سزاوں کے باوجود اب بھی انسان اس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ سر تسلیم خم نہیں کیا اور دنیا کو اپنا ایٹمی پروگرام قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ کیا اس کینے اور توہین کا سبب یہ ہے کہ آج ایران، وسیع پابندیوں کے باوجود ایک طاقتور اقتصاد اور سائنس، صنعت اور فوجی شعبوں میں ایک مضبوط قلعے میں تبدیل ہو گیا ہے جس نے اپنے متعدد سٹیلائٹ فضا میں راونہ کئے ہیں، پیشرفتہ ڈرونز تیار کئے اور بیلسٹک میزائلوں کی ڈیزائنگ کی ہے؟
کیا یہ کینے اس وجہ سے ہیں کہ آج ایران ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے اور جانور صفت وہابیوں کاعراق، شام، لیبیا، لبنان اور یمن میں قلع قمع کر دیا اور ان میں یہ جرآت بھی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ ایران کی سرحدوں سے نزدیک ہونے کے بارے میں بھی سوچ سکیں۔ ایران وہ ملک ہے جہاں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے جو اس ملک کے باشندوں کو گزند پہنچانے کے بارے میں سوچ سکیں یا اس ملک کے قدیمی آثار اور تاریخی مقامات کو آسیب پہنچا سکیں یا ان کی قبروں کو منہدم کریں یا ان کے مقدس مقامات کو دھماکے سے اڑا سکیں اور ان کو نابود کر سکیں؟
کیا ایران سے کینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک انقلاب کے بعد سے ہر چار سال میں ایک بار منظم طریقے سے انتخاب کا انعقاد کرکے عربوں کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور ان کو سبق سکھاتا ہے کہ اپنی حکومت کے دوران وہ اس حقیقت کو درک کرنے سے عاجز ہیں؟
کیا اس کا سبب یہ ہے کہ ایران نے 1980 سے اپنے ان جیالوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے جنہوں نے اپنے دشمن عراق کو شکست دی، اپنے ملک کی سرزمین کے ہر حصے کو آزاد کرایا اور اپنے قیدیوں کو مادر وطن واپس لائے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ عرب اس وقت اسرائیل کے سامنے سر سلیم خم کئے ہوئے ہیں اور تمام توہین کے ساتھ اس کے ساتھ اتحاد کئے ہوئے ہیں اور اپنی اس خیانت سے خود کو خوشحال کر رہے ہیں؟ میں (مصنف) ان لوگوں کے نفسیاتی بحران، ان کی پریشانی اور جھنجھلاہٹ کو درک کرتا ہوں جنہوں نے شام میں زہران علوش اور ابو محمد جولانی کی سربراہی میں دہشت گرد حکومت کی تشکیل کے لئے اربو ڈالر خرچ کئے۔ میری گفتگو اردن کے ان شہریوں سے ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے دوران کسی بھی ایرانی کو نہیں دیکھا، یہ تعصب اور کینے کہاں سے پیدا ہوئے؟ افسوس اور بے شک، ایران کے خلاف یہ دیوانگی کے پروپیگینڈوں کی اصل وجہ، وہابیوں کے کینے اور نسل پرستانہ حملے ہیں۔
وہابی اپنے علوم دین اور علمی تجربات کو سو سال بعد مندرجہ ذیل مسائل کے تناظر میں منتشر کرتے ہیں : حلال و حرام، نکاح، مرد و عورت کی شرمگاہ، سیکس، حور و پری، ہمبستری، حیض، نفاس، مجنب ہونا، بیت الخلاء میں داخل ہونے کے آداب، مبطلات وضو، پیشاب کرنے کے آداب، نماز ترک کرنے والے کو قتل کرنا، عذاب قبر، زہریلے سانپ، جہنم کا درجہ حرارت، بیوہ عورت کے ساتھ ہمبستری، عیسائیوں کو ان کی عیدوں پر مبارکباد پیش کرنے کی حرمت، ان کے لئے مسائل پیدا کرنا، مجالس عزا کے انعقاد پر پابندی، اونٹ کا پیشاب پینا، کمسن لڑکیوں سے شادی کرنا، جہاد نکاح اور آواز کے ساتھ اور بغیر آواز کے ریاح نکلنے میں فرق وغیرہ۔
جبکہ ایران اسٹیم سلز کے شعبے میں تجربات اور تحقیقات کے شعبے میں دنیا میں پہلے مقام پر ہے جبکہ تہران کا سمفنی آرکسٹرا یورپ کے کلیساوں میں کلاسک میوزک بجاتا ہے اور وہابی داعش، نصرہ فرنٹ، جیش الاسلام، احرار الشام، جیش الفتح، نور الدین زنکی، جند الاقصی اور اکناف بیت المقدس میں انسانیت کا استحصال کر رہے ہیں اور لوگوں کو سولی پر چڑھا کر، مقتولین کے جگر کھا کر، خواتین اور لڑکیوں کو کنیز بنا کر اور ان کو بازار میں فروخت کرکے، بچوں کا سر قلم کرکے، انسانوں کو آگ میں جلا کر، ان کو غرقآب کرکے، گاڑی کے نیچے ان کو کچل کر، چھت کے اوپر سے ان کی لاشوں کو پھینک کر، وحشی انداز میں ان کی گردن مارنے، قبروں کو کھودنے، مسجد کو دھماکوں سے اڑانے اور ان میں بم نصب کرنے، میوزیم کو تباہ کرنے، کلیسا اور چرچوں کو آگ لگانے، راہباوں کو اغوا کرنے، قدیمی شہروں کو تباہ کرنے اور مقدس مقامات کی تباہی دنیا کو اب بھی یاد ہے، یہ سب جرائم کا ارتکاب کرکے اور تشدد کرکے خوشیاں مناتے ہیں!!!
ان سب کے باوجود ہم اردن کے عوام پوری حماقت کے ساتھ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے پانچ لاکھ سے زائد ایرانی سیاحوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا جبکہ ہم مدد کے لئے ان کی جانب اپنی جھولی پھیلاتے ہیں جنہوں نے ہم کو ذلیل و رسوا کیا، میرا مقصد خلیج فارس کے عرب ممالک امریکا اور صیہونی حکومت ہیں۔