ایران کے خلاف امریکہ نے ایک اور جھوٹ بولا
امریکی وزارت خارجہ نے ایران مخالف اقدامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تہران پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔
واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ نے اپنے دعوے کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدوں پر مختلف ملکوں کی جانب سے عملدرآمد سے متعلق جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کا اعادہ کیا گیا ہے۔
کانگریس کو بھیجی جانے والی اس رپورٹ میں امریکی وزارت خارجہ نے، ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کی اب تک کی تمام رپورٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جن میں ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کی تصدیق کی گئی ہے، اسرائیل کے دعوے کو بنیاد بناتے ہوئے، ایران پر جامع ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔امریکی وزارت خارجہ نے دعوی کیا ہے کہ ایران جامع ایٹمی معاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، سن دوہزار پچیس میں معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد، اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
اس رپورٹ کے ایک اور حصے میں دعوی کیا گیا ہے کہ ہے ایران اس وقت مشرق وسطی میں میزائلوں کے سب سے بڑے گوادم کا مالک ہے اور وہ مسلسل اپنے میزائلوں کے سائز، کارکردگی اور ہلاکت خیزی میں اضافہ کر رہا ہے۔
امریکا اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کا ایسی حالت میں اعادہ کرتا رہتا ہے کہ ایران کے اعلی حکام بارہا اعلان کرچکے ہے کہ تہران کی دفاعی حکمت عملی میں ایٹمی اسلحے کی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس کے میزائلوں کی ڈیزائننگ ایسی نہیں ہے کہ وہ ایٹمی وار ہیڈ لے جاسکیں۔
اس کے علاوہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا واضح، شفاف اور صریحی فتوا موجود ہے کہ ایٹمی اسلحے بنانا، رکھنا اور ان کا استعمال حرام ہے۔
ادھر نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کی اس رپورٹ پر متعدد امریکی عہدیداروں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران سے متعلق جائزوں کو سیاسی بنارہی ہے اور ان میں تحریف کر رہی ہے۔