ٹرمپ کی فرد جرم، سینیٹ کے حوالے
امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کے خلاف فرد جرم، مواخذے کی کارروائی کے لئے سینٹ کے سپرد کردی گئی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے ارکان پر مشتمل امپیچمینٹ مینیجرز نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فرد جرم باضابطہ طور پر سینیٹ کے حوالے کر دی جس میں لوگوں کو بغاوت پر اکسانے جیسے سنگیں الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
قبل ازیں سینیٹ کے اجلاس کے دوران امپیچمینٹ مینیجرز ٹیم کے سربراہ جیمی راسکین نے ٹرمپ کے خلاف فرد جرم پڑھ کر سنائی اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی باضابطہ اپیل کی۔
امریکی ایوان نمائندگان نے تیرہ جنوری کو ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک منطور دی تھی ۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹ اکثریتی پارٹی کے لیڈر چک شومر نے اعلان کیا ہے کہ وہ زیادہ گواہوں کو طلب کئے بغیر ہی سابق صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر دیں گے۔
چک شومر نے پیر کی شام سینٹ میں مواخذہ کیس کی فائل وصول کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کے سابق صدر کے مواخذے کا کیس زیادہ گواہوں کی موجودگی کے بغیر ہی تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔ ڈیموکریٹ رہنماؤں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ٹرمپ کے مواخذے کا عمل تیزی سے آگے بڑھے گا۔
درایں اثنا ریپبلیکن سینٹر رینڈ پال نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا مواخذہ کیس غیرقانونی ہے اور میں اس سلسلے میں ووٹنگ کرائے جانے کا خواہاں ہوں تاکہ واضح ہو سکے کہ ٹرمپ کا مواخذہ قانونی ہے یا نہیں؟
امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر بدعنوانی اور چھے جنوری کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر اپنے حامیوں کو حملے کے لئے اکسانے اور بدعنوانی کا سنگین الزام عائد ہے۔
ٹرمپ نے کیپٹل ہل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے اپنے بیانات اور اقدامات کو پوری طرح بجا اور صحیح ٹھہرایا ہے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی ہے کہ ان کا مواخذہ مزید اشتعال اور ناراضگی بڑھنے کا باعث ہوگا۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کے خلاف تحریک مواخذہ کی منظوری کے بعد وہ امریکہ کے ایسے پہلے صدر بن گئے ہیں جنہیں دو بار مواخذہ تحریک کا سامنا رہا۔
چھے جنوری کو ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت پر اس وقت حملہ کر دیا تھا جب وہاں منتخب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے لیے اجلاس ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں نے کئی گھنٹے تک کانگریس کی عمارت پر قبضہ کیے رکھا جس کے نتیجے میں ایوان کی کارروائی معطل کرنا پڑی جبکہ اس دوران ہونے والے تشدد اور فائرنگ کے واقعات میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چھے افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
اس صورتحال کے پیش نظر صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے موقع پر امریکہ بھر میں فوج اور سیکورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔