امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا معاہدہ، روس اور چین کی جانب سے کڑی نکتہ چینی
روس نے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان طے پانے والے نئے سیکورٹی معاہدے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے منافی قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ویانا ہیڈ کوارٹر میں تعینات روس کے مستقل مندوب میخائیل اولیانوف نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایکوس کے نام سے طے سے پانے والے نئے سیکورٹی معاہدے کی بابت سخت خبردار کیا اور کہا کہ اس معاہدے نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
روسی مندوب نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کو یہ فیصلہ کرنے میں سترہ ماہ لگے کہ ایٹمی آبدوزوں کی تیاری کے لیے لازمی ٹیکنالوجی کی منتقلی میں آسٹریلیا کی مدد کیسے کی جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے تعلق رکھتا ہے اور انتہائی حساس معاملہ ہے۔روسی مندوب نے واضح طور پر کہا کہ اس قسم کی آبدوزیں انتہائی افزودہ یورینیم سے چلائی جاتی ہیں اور اس گریڈ کا یورینیم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔
روسی مندوب کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ سیاسی لحاظ سے چین پر حملہ ہے اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نئے اتحاد کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے۔سینیئر روسی سفارت کار نے مزید کہا کہ آسٹریلیا کی جانب سے ایٹمی آبدوزوں کی تیاری کے فیصلے نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا سائرن بجا دیا ہے اور یہ ایران اور شمالی کوریا کے لیے ایک بری مثال ہے۔
چین نے بھی آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان طے پانے والے نئے سیکورٹی معاہدے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی خطرناک اقدام اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی کھلی مثال قرار دیا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے سربراہوں نے بدھ کے روز بحرہند اور بحرالکاہل کے علاقے کے تعلق سے سفارتی ، سیکورٹی اور عسکری تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایٹمی آبدوزوں کی تیاری، اس معاہدے کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا منصوبہ شمار ہوتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ ایٹمی آبدوزوں کی تیاری میں آسٹریلیا کی مدد کریں گے۔
غیر ملکی صحافتی حلقوں اور ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس نئے معاہدے کا اصل مقصد مشرقی ایشیا اور دنیا کے دیگر خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے اور اس اقدام پر بیجنگ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کسی ٹھوس ردعمل کا آنا غیر متوقع نہیں۔