روس اور یوکرین کے درمیان گھمسان کی جنگ، دونوں طرف سے دعووں کا بازار گرم
روسی صدر پوتین کے ذریعے یوکرین کے مشرق میں دونباس کے علاقے کا تحفظ اور اس کا دفاع کرنے کے لئے خصوصی ملٹری آپریشن شروع کرنے کا حکم جاری کرنے کے بعد روسی فوج نے حملے شروع کردئے ہیں۔
ڈونباس کا علاقہ مشرقی یوکرین میں روسی نژاد آبادی کا علاقہ ہے جہاں دو ہزار چودہ میں ڈونیسک اور لوہانسک کے ناموں سے دو جمہوریاؤں نے یوکرین سے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق روس کے حملے میں یوکرین کا ایئر ڈیفنس بیس سمیت مختلف فوجی ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں. روس کے حملے میں کی ایف اور خارکیف میں یوکرین کے فوجی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اہے جبکہ یوکرین نے بھی دعوی کیا ہے کہ اس نے روس کے پانچ جنگی طیاروں کو مار گرایا ہے تاہم روس نے اسکی تردید کی ہے۔ یوکرین کے صدر نے اپنے ملک کے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں ہی رہیں باہر نہ نکلیں۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمترو کیلیبا نے کہا کہ روس نے یوکرین پر حملہ باقاعدہ حملے کا آغاز کر دیا ہے۔ روسی وزارت دفاع نے کہا ہے ہم یوکرین کے رہائشی علاقوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق یوکرینی وزیرخارجہ دیمترو کیلیبا نے ٹویٹ میں کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین پر پوری طاقت سے حملہ کر دیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ دارالحکومت کیف سمیت کئی شہروں پر حملے کئے گئے ہیں، دنیا صدر پویتن کو روکے، یہ عملی اقدامات کرنے کا وقت ہے تاہم ہم ہرقیمت پر اپنے ملک کا دفاع کریں گے اورکامیاب ہوں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق دارالحکومت کیف، ڈونباس، اڈیسہ ماریوپول سمیت یوکرین کے مختلف شہروں میں دھماکوں کی زوردار آوازیں سنائی دیں۔ روسی فوج نے یوکرین کے فوجی اڈوں کو بھی میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
مزید دیکھیئے:لیجیئےامریکی مراد بر آئی، روس یوکرین جنگ کا آغاز ہو گیا۔ ویڈیو
برطانوی میڈیا کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین پر خصوصی فوجی آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے یوکرین کی فوج سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین نے دھمکی دی ہے کہ بیرونی مداخلت ہوئی تو روس جواب دے گا۔ روسی صدر کے مطابق یہ فوجی آپریشن یوکرین کی دھمکیوں کے جواب میں اور اسلحے سے پاک خطے کے لیے ہے، خاص طور سے ایسی حالت میں کہ جب سلامتی سے متعلق روسی تشویش کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
یوکرین کی جانب سے روس کے مختلف شہروں پر حملے کی سرکاری سطح پر تصدیق کی گئی ہے۔ یوکرین کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ روس نے بیلیسٹک اور کروز میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق روسی فوج یوکرین کے علاقے ماریوپول اور اڈیسہ میں پہنچ گئی ہے۔
اُدھر یورپین قیادت نے روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کو بلاجواز اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین اور یورپی کونسل کے صدر چارلس میشل نے برسلز سے جاری اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہم یوکرین کے خلاف روسی فوج کی جارحیت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے کہا کہ اپنی بلا اشتعال اور بلاجواز فوجی کارروائیوں سے روس بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے اور یورپی اور عالمی سلامتی و استحکام کو نقصان پہنچا رہا ہے، ہم اس حملے میں ہونے والے جانی نقصان اور انسانی تکلیف پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
بیان میں روس سے مزید مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر حملوں کا سلسلہ بند کرے، یوکرین سے اپنی فوج نکال لے اور یوکرین کی علاقائی سالمیت، خود مختاری اور آزادی کا مکمل احترام کرے۔
اسی اثنا میں روسی پارلمینٹ کے بین الاقوامی امور کے کمیشن کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ روسی ملٹری آپریشن کا مقصد یوکرین پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ ڈونیسک اور لوہانسک کے شہریوں کی حمایت اور ان کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
شہر خارکیف میں الجزیرہ ٹی وی چینل کے رپورٹر نے اس شہر کی مقامی پارلیمنٹ کی عمارت پر روسی پرچم لہرائے جانے کی خبر دی ہے۔ اس سے قبل الجزیرہ ٹی وی چینل نے رپورٹ دی تھی کہ کی ایف اور خار کیف میں فوجی ٹھکانوں پر میزائل حملے ہوئے ہیں۔
دریں اثنا روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرینی فوجی ڈونباس کے علاقے سے ہتھار چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ روس کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ماسکو کی فوجی کارروائی سے یوکرین کے عام شہریوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور شہروں پر حملے نہیں کئے جا رہے ہیں۔
ڈونیسک کے صدر نے بھی اعلان کیا ہے کہ ڈونباس میں یوکرینی فوجی ہیڈکوارٹر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
اس درمیان روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی اور تنازعے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس یوکرین کی درخواست پر بلایا گیا ہے، تین روز کے دوران سلامتی کونسل کا یہ دوسرا ہنگامی اجلاس ہے۔