فرانس اور جرمنی کی روسی صدر سے اپیل
فرانس اور جرمنی نے روسی صدر سے، یوکرین کی بندرگاہ اودیسا کا محاصرہ ختم کرنے، دوبارہ جنگ پر اتفاق اور یوکرینی صدر سے براہ راست ملاقات کی اپیل کی ہے۔
ہمارے نمائندے کے مطابق فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ پیرس اور برلن نے روسی صدر ولادیمیر پوتین سے درخواست کی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق یوکرین کی بندرگاہ اودیسا کا محاصرہ ختم کیا جائے۔
یورپی ملکوں کا دعوی ہے کہ یوکرین کا بحری محاصرہ غلات کی برآمدات میں کمی کی اصل وجہ ہے تاہم روس اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخا رووا نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف میں غیر ملکی بحری جہازوں کی آمد روکنے کا مغربی دعوی بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس ہر روز انسان دوستانہ کوریڈور کھولتا ہے لیکن یوکرینی حکام اس معاملے میں بالکل تعاون نہیں کر تے۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بریسلز میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ انہوں نے اور جرمن چانسلر اولاف شلز نے روس کے صدر ولادیمیر پوتین سے ٹیلی فون پر بات چیت اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اودیسا کی بندرگاہ کا محاصر ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔
میکرون اور شلز نے روس کے صدر سے دوبارہ جنگ بندی کی درخواست بھی کی ہے اور زور دیا کہ وہ جتنی جلد ممکن ہو یوکرینی صدر کے ساتھ براہ راست ملاقات کی تجویز قبول کرلیں۔
دوسری جانب یورپی کونسل کے سربراہ شارل میشل نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں نے روسی تیل کے بڑے حصے کی درآمد پر پابندی عائد کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ بعدازاں یورپی کمیشن کے سربراہ فونڈرلین نے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تازہ پابندیوں کے نفاذ کے بعد رواں سال کے آخر تک یورپی یونین کے لیے روسی گیس کی درآمد عملی طور پر نوے فیصد کم ہوجائے گی۔
ادھر کروشیا کے صدر زوران میلانووچ نے خبردار کیا ہے کہ روسی آئل سیکٹر پر یورپی یونین کی نئی پابندیوں کی قیمت یورپی شہریوں کو چکانا پڑے گی ۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کی نئی پابندیوں سے صرف روسی صدر ہی خوش ہوں گے۔
کروشیا کے صدر نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا کہ جب آپ روسی گیس پر پابندیاں لگا سکتے ہیں تو پھر لگاتے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ افسوس کہ پابندیاں کار گر واقع نہیں ہوں گی اور روسی کرنسی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا اور روس کو نئے خریدار آسانی کے ساتھ مل جائیں گے۔
قابل ذکر ہےکہ یورپی یونین کی جانب سے روسی تیل اور گیس پر مزید پابندیوں کے فیصلے کا اعلان ہوتے ہی تیل کی منڈیوں میں تیزی آئی ہے اور تیل کی عالمی قیمت ایک سو پچیس ڈالرفی بیرل سے تجاوز کرگئی ہے۔