اسرائیلی تجزیہ نگار کا اعتراف، بری طرح سے پھنس گیا ہے اسرائیل
ایک صیہونی تجزیہ نگار نے اپنی حکومت کے حالات کو پیچیدہ حکمت عملی میں پھنسا ہوا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
سحر نیوز/ دنیا: تسنیم نیوز کے مطابق، صیہونی اخبار ہارٹص میں شائع ہونے والے تجزیےمیں ایلی باخر کا کہنا ہے کہ حماس کے ساتھ 100 دن سے زیادہ کی جنگ اس کے خاتمے یا مغویوں کی واپسی کا باعث نہیں بنی۔
اس تجزیہ کار کے مطابق، آج بہت سے شکوک و شبہات موجود ہیں کہ آیا جنگ کے اعلان کردہ اہداف واقعی فوجی نقطہ نظر سے قابل رسائی ہیں؟
صیہونی تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ ویسٹ بینک کے یہودا اور سامرہ میں سیکڑوں فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جہاں اسرائیلی فوج فضائی حملے کر رہی ہے جو اب تک فوج نے کئی برسوں سے نہیں کیا تھا ۔
اسرائیلی تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ لبنان کے ساتھ لگنے والی شمالی سرحد پر ہم ایک دوسرے کے ساتھ فوجی گولہ باری کا تبادلہ کر رہے ہیں، ایسے اقدامات جو کسی بھی وقت خطرناک بحران کا باعث بن سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں دسیوں ہزار اسرائیلیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا ہے اور وہ کئی مہینوں سے بے گھر ہیں۔
صیہونی تجزیہ کار لکھتے ہیں کہ جنگ یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ یمن جیسے دور دراز محاذوں پر بھی جاری ہے اور اسرائیل کی وجہ سے عالمی جہاز رانی کے راستے متاثر ہوئے ہیں۔
مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل 7 اکتوبر کے بعد اپنے حملوں کا جواز پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے لیکن یہ عالمی حمایت اسی طریقے سے ختم بھی ہو گئی ہے۔