Feb ۱۹, ۲۰۲۴ ۱۵:۰۳ Asia/Tehran
  • مغربی ملکوں کی مداخلت نہ ہوتی تو یوکرین کی جنگ 18 مہینے پہلے ختم ہوجاتی: روسی صدر

روسی صدر نے کہا ہے کہ ماسکو کیف کے ساتھ پرامن طریقے سے جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے تاہم یوکرین کی طرف ایسا کوئی اشارہ نہیں آرہا ہے کہ وہ صلح کا خواہاں ہے۔

سحر نیوز/ دنیا: تاس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ماسکو، یوکرین جنگ کے خاتمے کے لئے کیف کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہے کہا کہ اگر یوکرین کی جنگ میں مغربی ملکوں کی مداخلت نہ ہوتی تو یہ جنگ اٹھارہ مہینے پہلے ہی ختم ہوجاتی لیکن کیف نے ایسا نہیں چاہا۔

روس اور یوکرین کے درمیان لڑائی بدستور جاری ہے۔ یوکرین کی جنگ، اپنے تمام تر وسیع سیاسی، فوجی، اقتصادی، سماجی اور حتی کہ ثقافتی نتائج کے ساتھ، اب تیسرے سال میں میں داخل ہو رہی ہے، اور مغربی ممالک اب بھی یوکرین کو ہتھیار بھیج رہے ہیں ۔ اس درمیان ایسے میں جبکہ روس یوکرین جنگ اپنے تیسرے سال میں داخل ہونے جا رہی ہے قرائن و شواہد سے ظاہر ہے کہ یوکرین کی فوج کو، روسی فوج کے مقابلے میں مسلسل ناکامی ہوئی ہے اور اس نے پسپائی اختیار کی ہے۔ اس سلسلے میں یوکرین کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ملک کے مشرق میں واقع ایک چھوٹے لیکن اہم شہر آوڈیوکا سے اپنی افواج کو واپس بلا لیا ہے کہ جو کئی مہینے سے روسی افواج کے گھیرے میں تھا۔

روسی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے اس نے اس شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور روسی صدر پوتن نے اسے بڑی فتح قرار دیا ہے۔ آوڈیوکا شہر کہ جو دونتسک کے علاقے کا گیٹ وے ہے، کئی مہینوں سے شدید جنگ کا میدان رہا ہے اور تقریبا مکمل طور پر ویران ہوگيا ہے۔ آوڈیوکا شہر پر قبضہ ، در اصل مئی 2023 میں باخموت شہر اور اس کے اطراف پر روسی افواج کے قبضے کے بعد سے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے رقبے میں فرنٹ لائن پر رونما ہونے والی یہ سب سے بڑی تبدیلی ہے۔

یوکرین کی مسلح افواج کے کمانڈر جنرل اولگزنڈر سیرسکی نے یوکرینی فوجیوں کو پیچھے ہٹنے کا فرمان جاری کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فیس بک پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا فیصلہ "آوڈیوکا" کے ارد گرد آپریشنل صورتحال پر منحصر ہے۔ اولگزنڈر سیرسکی نے کہ جنہیں چند روز قبل یوکرین کی مسلح افواج کا کمانڈر مقرر کیا گیا ہے کہا ہے کہ یوکرین کی افواج صورتحال کو مستحکم کرنے اور اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اس سے پہلے کہا تھا کہ آوڈیوکا شہر کے سقوط کا خطرہ حتمی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنگی مہم میں یوکرینی افواج کے توپ خانے کا گولہ بارود ختم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس یوکرین کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے فوجی دستے بھیج رہا ہے اور چونکہ امریکی کانگریس ابھی تک ہتھیاروں کے تعلق سے بل پاس نہیں کرسکی ہے، اس لئے ہم یوکرین کو توپ خانے کے گولے فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یوکرین کو روسی حملوں کو پسپا کرنے کے لئے ان گولوں کی اشد ضرورت ہے۔

یوکرین کے جنگی محاذوں کی موجودہ صورتحال اور خاص طور پر اسٹریٹجک شہر آوڈیوکا سے یوکرینی افواج کی پسپائی، اس جنگ کی مجموعی صورتحال اور اس کے مستقبل کو واضح کر رہی ہے۔

درحقیقت یوکرین روس جنگ کا تیسرا سال ایسی صورت میں آن پہنچا ہے کہ جب اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے اور خاص طور پر یوکرین میں جوابی حملوں کے آغاز کے بعد لڑائی کا تسلسل، جنگ کے دونوں فریق یعنی روس اور یوکرین کے لئے انسانی جانوں اور فوجی ساز و سامان کے نقصانات میں نمایاں اضافہ کا باعث بنا ہے۔

ٹیگس