غزہ جنگ بندی: نیتن یاہو اپنے موقف سے دستبردار، امریکہ اور اسرائیل کو منھ کی کھانا پڑی
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کو قبول کرنے کا مطلب اسرائیل اور امریکہ کی شکست ہے۔
سحر نیوز/ دنیا: غزہ پر جب غاصب اسرائیل نے جارحیت شروع کی تو صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کے اہم اہداف میں سے ایک حماس اور غزہ کی پٹی میں مزاحمت کو تباہ کرنا تھا۔
جنگ کے بالکل ابتدائی دنوں میں، نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے دیگر رہنماؤں نے یہودی ربیوں کی تحریف شدہ تورات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ کا مقصد "فلسطینی انسان نما جانوروں" سے لڑنا ہے اور وعدہ کیا کہ جنگ کے اختتام پر غزہ میں کوئی مزاحمت کار نہیں رہے گا۔ تاہم صہیونی ماہرین اور اعلی حکام اور حتیٰ کہ مغربی ماہرین کے بیانات کے مطابق نیتن یاہو نہ صرف یہ مقصد حاصل نہیں کر سکے بلکہ وہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچے ہیں۔
دوسری جانب صیہونی حکومت نے اپنے بہت سے فوجیوں، افسروں اور فیلڈ کمانڈروں کو کھو دیا ہے اس لئے وہ اب افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے پناہ گزینوں کو اسرائیلی شہریت دینے اور انہیں فوج میں بھرتی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ یرغمالیوں کی رہائی اور مقبوضہ علاقوں میں ان کی بحفاظت واپسی صیہونی حکومت کا جنگ شروع کرنے کا ایک اور ہدف تھا لیکن نہ صرف یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا بلکہ خود صیہونی حملوں میں متعدد یرغمالی بھی مارے گئے۔ اسی لئے آج بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ غزہ پر حملہ کرنے میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے وہ بالآخر جنگ بندی پر متفق ہو گئے اور یہی امراسرائیل اور امریکہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔